(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) 20برس قبل ایریل شیرون نے مسجد اقصی کی حدود کا دورہ کیا اور کہا تھا کہ یہ ٹیمپل ماؤنٹ ایک اسرائیلی علاقہ بنے گا جس نے فلسطینی مسلمانوں میں اشتعال انگیزی کو جنم دیا۔
ایک تاریخی جائزے کی روشنی میں مسجد اقصی انتفامہ کو برس ہوچکے ہیں جب مسلمانوں کاقبلہ اول یعنی بیت المقدس جو کہ یہودی ،مسلمانوں اورنصرانیوں کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ایک مقدس مقام ہے تاہم اس مقام مقدس کو متنازعہ بناتے ہوئے صہیونیوں کی جانب سے 20سال قبل اس وقت دوسری فلسطینی بغاوت کی چنگاری پھوٹ پڑی جب سابق صہیونی وزیر اعظم ایریل شیرون نے قریب دو ہزار فوجیوں اور خصوصی تربیتی یافتہ سیکیورٹی دستوں کی نگرانی میں مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا اور اس وقت کے وزیر اعظم ایہود بارک کی منظوری سے نمازیوں اور قابض فوج کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
ان جھڑپوں میں مسجد اقصی کی حفاظت میں لاتعداد فلسطینی مسلمانوں اور صہیونی فوج کے درمیان شدید تصادم ہوا اور جب سے آج تک قابض صہیونی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان لاتعداد جھڑپوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں سینکڑوں فلسطینی شہید اور صہیونی فوجی اہلکار جہنم واصل ہوئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔
اس دن بیس سال قبل، دوسری فلسطینی بغاوت کی چنگاری پھوٹ پڑی، اس کے بعد سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے قریب دو ہزار فوجیوں اور خصوصی دستوں کی حفاظت میں مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا ، اور اس وقت کے وزیر اعظم ایہود بارک کی منظوری سے نمازیوں اور قابض فوج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔