(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے فنڈ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ صیہونی حکومت کی تباہ کن جنگ اور غزہ پٹی میں بنیادی ڈھانچے اور تعلیمی سہولیات کی تباہی کے نتیجے میں فلسطینی بچوں، نوجوانوں اور جوانوں کی ایک پوری نسل کو تباہی کا خطرہ ہے۔
یونیسف کے مطابق، جاری جنگِ غزہ کے دوران چوںسٹھ ہزار سے زائد بچے شہید اور متعدد زخمی ہوئے جب کہ اٹھاون ہزار سے زیادہ بچوں نے اپنے والدین میں سے کم از کم ایک کو کھو دیا ہے۔
فرینڈز آف فلسطین کے مطابق یہ اعداد و شمار انسانی المیے کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جو پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔
غزہ کے بچے جو زندگی، تعلیم اور امن کے حق دار تھے آج ملبے کے ڈھیروں اور تباہ شدہ گھروں میں اپنے بچپن کے خواب دفن کر چکے ہیں۔
دنیا کی خاموشی اس ظلم کو مزید تقویت دے رہی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر حرکت میں آئے تاکہ غزہ کے معصوم بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں اور انہیں وہ تحفظ، تعلیم اور مستقبل فراہم کیا جا سکے جس کے وہ حق دار ہیں۔
یونیسیف کے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے لیے ریجنل ڈائریکٹر ایڈورڈ بیگ بیڈر نے غزہ پٹی میں ایک پوری نسل کے خاتمے کے خطرے سے خبردار کیا ہے کیونکہ دو سال سے بچے محاصرے میں رہ رہے ہیں اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور تعلیمی نظام تقریبا پوری طرح تباہ ہو چکا ہے۔
انہوں نے غزہ پٹی سے واپسی پر کہا کہ یہ تیسرا تعلیمی سال ہے جب غزہ پٹی میں بچے اور نوجوانوں کے لئے کوئی اسکول نہیں ہے۔
اڈوارڈ بگبڈر نے کہا کہ اگر ہم آئندہ فروری میں تمام بچوں کے لیے حقیقی تبدیلی نہیں شروع کرتے ہیں تو ہم چوتھے سال میں داخل ہو جائیں گے اور پھر ہم ایک ہاتھ سے نکل چکی ہوئی نسل کے بارے میں بات کریں گے۔
مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے لیے یونیسیف کے علاقائی ڈائریکٹر نے وضاحت کی کہ غزہ پٹی میں جنگ بندی سے یونیسیف اور تعلیمی شراکت داروں کو یہ موقع ملا کہ جن بچوں کو اسکول میں ہونا چاہئے تھا ان کا صرف تقریبا چھٹا حصہ عارضی تعلیمی مراکز میں پہنچا سکے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ سیکھنے کا معاملہ ہے تعلیم کا نہیں کیونکہ پچاسی فیصد اسکول تباہ ہوچکے ہیں یا اب قابل استعمال نہیں ہیں اور باقی اسکولوں میں سے بیشتر کو بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
یونیسیف کے اس عہدیدار نے کہا کہ کم از کم ہمیں نوٹ بک، کتابوں اور اسٹیشنری کی ضرورت ہے۔