غزہ: حاملہ خواتین/نوزائیدہ بچوں میں غذائی قلت، آئندہ نسلوں کے لیے سنگین خطرہ
اس صورتحال سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیاں بچوں میں عمر بھر کی جسمانی کمزوریوں اور بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں جنہیں طویل مدتی علاج اور نگہداشت کی ضرورت ہوگی۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ)اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے "آبادی کے لیے فنڈ” نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حاملہ خواتین اور شیرخوار بچوں میں شدید غذائی قلت کے اثرات آنے والی نسلوں تک پھیلیں گے۔ اس صورتحال سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیاں بچوں میں عمر بھر کی جسمانی کمزوریوں اور بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں جنہیں طویل مدتی علاج اور نگہداشت کی ضرورت ہوگی۔
یہ انتباہ اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں ادارے کے نمائندے اینڈریو سابرٹن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران دیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ حال ہی میں پانچ روزہ دورے کے بعد لوٹے ہیں جس میں القدس، مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی شامل تھی، جہاں انہوں نے پانچ گھنٹے گزارے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں تباہی کا منظر ایسا تھا جیسے کسی ہالی وڈ فلم کا ہولناک منظر ہو۔
سابرٹن نے بتایا کہ غزہ میں ہر چار میں سے ایک شخص بھوک کا شکار ہے، جن میں تقریباً گیارہ ہزار پانچ سو حاملہ خواتین شامل ہیں۔ ان کے مطابق اس قحط اور غذائی قلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ستر فیصد بچے وقت سے پہلے اور کم وزن کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں، جبکہ جنگ سے قبل یہ شرح صرف بیس فیصد تھی۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے ہسپتالوں میں نوزائیدہ بچوں کے یونٹس اپنی استعداد سے ایک سو ستر فیصد زیادہ کام کر رہے ہیں، جس کے باعث بعض اوقات ایک ہی انکیوبیٹر میں ایک سے زیادہ بچے رکھنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
سابرٹن کے مطابق غزہ میں اس وقت ہر تیسرے حمل کو "انتہائی خطرناک” قرار دیا گیا ہے اور ماؤں کی اموات کی شرح تشویشناک حد تک بلند ہے۔
انہوں نے کہا کہ غذائی قلت اس وقت غزہ کی سب سے بڑی انسانی المیہ ہے۔ دواؤں کی شدید کمی، تباہ شدہ طبی ڈھانچہ اور قابض اسرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری نے صورتحال کو ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ کے چورانوے فیصد ہسپتال یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں یا شدید نقصان کا شکار ہیں، جبکہ صرف پندرہ فیصد طبی مراکز ہی ایمرجنسی زچگی کی خدمات فراہم کر پا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مانع حمل ذرائع کے فقدان کے باعث کئی خواتین خطرناک اسقاطِ حمل پر مجبور ہیں۔ اسی طرح جنسی بنیادوں پر تشدد، گھریلو زیادتی اور کم عمری کی شادیاں بھی خوفناک حد تک بڑھ چکی ہیں جیسا کہ عام طور پر جنگ زدہ علاقوں میں ہوتا ہے۔
غزہ کی وزارتِ صحت اور حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق 7 اکتوبر سنہ2023ء کو قابض اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام کے خلاف شروع کی گئی نسل کشی کی جنگ کے بعد سے اب تک بارہ ہزار حاملہ خواتین کو غذائی قلت اور صحت کی سہولیات کے فقدان کے باعث اسقاطِ حمل کرنا پڑا ہے۔
یہ اعداد و شمار اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ قابض اسرائیل کی دانستہ محاصرے اور بھوک پر مبنی پالیسی نہ صرف موجودہ فلسطینی نسل کو مٹا رہی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے وجود کو بھی خطرے میں ڈال چکی ہے۔