(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی وزارتِ صحت نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے دانستہ طور پر بھوک اور غذائی قلت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی کے نتیجے میں مزید چھ فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔
وزارتِ صحت نے وضاحت کی کہ اس پالیسی کے باعث بھوک اور غذائی قلت سے شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد تین سو ننانوےتک پہنچ گئی ہے جن میں ایک سو چالیس معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ بیان میں مزید بتایا گیا کہ جب سے عالمی ادارے آئی پی سی نے غزہ میں قحط کی باضابطہ طور پر نشاندہی کی ہے اس وقت سے اب تک ایک سو اکیس فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں پچیس بچے شامل ہیں۔
وزارتِ صحت نے شدید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے بیشتر ہسپتال مکمل طور پر غیر فعال ہو چکے ہیں جبکہ باقی ماندہ طبی عملہ انتہائی مشکل حالات اور بنیادی وسائل کی شدید کمی کے باوجود اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ وزارت نے خبردار کیا کہ غزہ شہر جو ادویات اور ویکسین کا سب سے بڑا مرکز ہے اس پر قابض فوج کا حملہ مریضوں کی زندگیوں کو شدید خطرے میں ڈال دے گا۔
وزارت نے فوری طور پر ایک محفوظ انسانی راہداری کھولنے کا مطالبہ کیا تاکہ غذائی امداد اور ادویات کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔ وزارت نے متنبہ کیا کہ مریضوں اور زخمیوں کو جنوبی غزہ منتقل کرنے کی کوئی بھی کوشش ان کی اموات میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ سفر کی صعوبتیں انہیں موت کے دہانے پر پہنچا دیں گی۔
دوسری جانب فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (انروا) نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی مسلسل جارحیت اور رہائشی عمارتوں پر حملوں کے بعد انسانی صورتحال مزید ابتر ہو رہی ہے۔ ان حملوں نے درجنوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا ہے اور بہت سے فلسطینی سڑکوں پر بغیر کسی چھت کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انروا نے اس بات پر زور دیا کہ فوری جنگ بندی ناگزیر ہے۔ ایجنسی نے واضح کیا کہ قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے امدادی سامان کے داخلے پر عائد سخت پابندیاں انسانی مصائب میں اضافہ کر رہی ہیں اور بے گھر فلسطینیوں کی زندگیوں کو مزید خطرات سے دوچار کر رہی ہیں۔