(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) یروشلم میں قابض غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے منگل کے روز سیکیورٹی اور سیاسی امور کی کابینہ (کابنیٹ) کا اجلاس بلانے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے صیہونی ریاست کے مطالبات پر غور کیا جا سکے۔ ان مطالبات کو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے حکام یہ سمجھتے ہیں کہ حماس مسترد کر دے گی۔
آج پیر کے روز ویب سائٹ "وائنٹ” کے مطابق، کابنیٹ میں پیش کیے جانے والے صیہونی مطالبات میں حماس کے رہنماؤں کو غزہ سے جلا وطن کرنا، "کتائب القسام” (حماس کے عسکری ونگ) کو تحلیل کرنا، اور تمام صیہونی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ اگر حماس ان مطالبات کو تسلیم کر لیتی ہے تو صیہونی ریاست یہ دعویٰ کرے گی کہ "جنگ ختم ہو چکی ہے”۔
دوسرے مرحلے کے مذاکرات، جو گزشتہ پیر کو شروع ہونے والے تھے جب پہلا مرحلہ 16 دن مکمل کر چکا تھا، کابنیٹ کے اجلاس کے بعد ہی شروع ہوں گے۔ جبکہ دوحہ، قطر میں موجود صیہونی وفد کو صرف پہلے مرحلے کو مکمل کرنے پر بات چیت کا اختیار حاصل ہے تاکہ مزید "خلاف ورزیاں” نہ ہوں۔
دوحہ میں موجود صیہونی وفد میں قیدیوں اور لاپتہ افراد کے امور کے سربراہ گال ہیرش اور سبکدوش ہونے والے "شاباک” کے نائب سربراہ شامل ہیں۔ ان کا کام معاہدے کی نگرانی، اور دیگر تکنیکی معاملات بشمول آئندہ چھٹی قسط میں تین مزید قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق، نیتن یاہو، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اور ان کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے درمیان دوسرے مرحلے کے بنیادی اصولوں پر اتفاق ہوا، جو پہلے ذکر کردہ مطالبات پر مبنی ہے۔ اگر حماس نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا تو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل پہلے مرحلے کو طول دینے کی کوشش کرے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ اپنے قیدیوں کو رہا کروا سکے۔
صیہونی ریاست کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں تین صیہونی قیدیوں کو حماس کی قید سے رہائی ملی، مگر وہ "بھوک” اور "محاصرے” کی وجہ سے وزن کم کر چکے ہیں، جبکہ صیہونی ریاست نے غزہ میں فلسطینی قیدیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا ہے۔ فلسطینی اسیران کی تنظیموں کے مطابق، فلسطینی قیدی صیہونی جیلوں میں بجلی اور پانی کی طویل بندش، بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، طبی غفلت، تشدد، اور قید خانوں میں بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، صیہونی ریاست کے جیلروں نے "سدیہ تیمن” کے حراستی مرکز میں قیدیوں کے خلاف جنسی جرائم بھی کیے ہیں، جن کی گواہیاں قیدیوں اور ان کے وکلا کے ذریعے ریکارڈ کی گئی ہیں۔
صیہونی حکام کے مطابق، اگر حماس قیدیوں کے معاملے پر مزید مطالبات رکھتی ہے تو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل "انسانی امداد” کی فراہمی روکنے جیسے اقدامات پر غور کر سکتی ہے۔ تاہم، نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ "معاہدے کو تباہ” نہیں کرے گا، مگر حماس کو "قیمت چکانی پڑے گی”۔
جہاں تک دوسرے مرحلے کا تعلق ہے، حماس کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ جنگ مکمل طور پر ختم کی جائے، صیہونی افواج غزہ سے مکمل انخلا کریں، اور بحالی و تعمیر نو کا عمل شروع ہو۔ اگر حماس نے پہلے مرحلے میں توسیع سے انکار کر دیا اور 33 قیدیوں کی واپسی پر پہلا مرحلہ ختم ہو گیا، تو صیہونی ریاست کے سامنے یہ سوال ہوگا کہ آیا وہ دوبارہ جنگ شروع کرے گی، جبکہ 65 مزید قیدی حماس کے قبضے میں موجود ہیں۔
دوسری طرف، صیہونی وزیر خزانہ بزالیل سموترچ نے دھمکی دی ہے کہ اگر صیہونی ریاست نے حماس کے مطالبات تسلیم کیے تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق، حماس کو اگر یہ موقع دیا گیا کہ وہ صیہونی بستیوں کے انخلا جیسے مطالبات رکھ سکے، تو یہ مستقبل میں "خطرناک مثال” بن جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ معاہدے میں شمالی غزہ میں بستیوں سے انخلا پہلے ہی ایک بڑی غلطی ہے، جو صیہونی ریاست کے لیے "خطرناک زوال” ثابت ہو سکتی ہے۔
ختاماً، سموترچ نے کہا کہ ان کی حکومت "اس جنون” کے آگے نہیں جھکے گی اور کوئی بھی ایسا معاہدہ جو صیہونی سیاسی مقاصد کو نقصان پہنچائے، وہ ناقابل قبول ہوگا۔