اسرائیل کی سیاسی قیادت ترکی کے ساتھ اپنےتعلقات بحال کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ مئی دو ہزار دس میں اسرائیلی کمانڈوز کی غزہ کی جانب امدادی سامان لیکر جانے والے ترک جہاز ماوی مرمرہ پر غارت گری کے بعد یہ تعلقات تعطل کا شکار ہیں۔
مفاہمت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے اسرائیلی حکام نے اس عرصے میں متعدد اقدامات اٹھائے تاہم ترک حکومت نے ہر باران اسرائیلی اشاروں پر کان نہ دھرا۔ وہ اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ توڑنے کے سفر پر گامزن اپنے نو رضا کاروں کے قتل عام پر معافی اور شہداء کے پسماندگان کو معاوضہ ادا کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
انقرہ کی حکومت نے اس ضمن میں صرف اشارے نہیں دیے بلکہ ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات پیش کردہ شرائط کے پورا ہونے سے قبل بحال نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے ان شرائط کو ایسی ریڈ لائن قرار دیا جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل کی جانب سے ترکی سے تعلقات بحالی کے لیے دیے گئے مثبت اشاروں میں اس کی ترکی میں تباہ کن زلزلے کے دوران چار سو طلبہ کی تعلیم کی فراہمی کے ایک اسکول کی تعمیر کی پیشکش بھی شامل تھی۔ اسی طرح گزشتہ کچھ ماہ کے دوران اسرائیل میں ترک اشیاء کی بڑھتی مانگ والی اشیا کی درآمدت میں اضافے پر آمادگی بھی ظاہر کی گئی۔ صہیونی عہدیداروں نے اپنی ٹی شرٹس پر ترکی کی کافی ELLITE کی اشتہاری مہم چلانے کا عندیہ بھی دیا، اسی طرح اسرائیلی صدر شمعون پیریز کی جانب سے حالیہ عرصے میں ایک حادثے میں سمندر میں ڈوبنے والے ترکوں کو نکالنے میں مدد فراہم کرنے کی پیش کش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
ترکی کی جانب سے اسرائیلی مثبت اشاروں کو مسلسل رد کیے جانے کے بعد اسرائیل نے ایک بار پھر گاجر اور چھڑی والی پالیسی کےتحت رخ بدلنا شروع کر دیا، بالخصوص جب ترکی نے استنبول میں ہونے والی ڈیوس کانفرنس میں اسرائیل کو شرکت سے روک دیا تواسرائیل کا غضبناک ہونا یقینی تھا۔ رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ ’’ون منٹ‘‘واقعے کے بعد سے ہی ترکی کے لیے ڈیوس کانفرنس ختم ہو گئی، ہوا یوں تھا کہ کانفرنس کی انتظامیہ نے شمعون پیریز کو طیب ایردوان کی نسبت زیادہ وقت دیا جس پر ناراض ہو کر ایردوان کانفرنس سے چھوڑ کر گئے تھے۔ ترکی پر حالیہ اسرائیلی حملہ اس وقت شروع کیا گیا جب کنیسٹ میں ایک بار پھر ترک عثمانیوں کے ہاتھوں آرمینیا کے قتل عام کی بحث کی گئی۔ یہ بحث ترکی کے اس مطالبے کے جواب میں شروع کی گئی ہے جس میں ترکی نے ماوی مرمرہ پر قتل عام کرنے والے چار اسرائیلی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا دینے کاکہا ہے۔
عبرانی زبان کے کثیر الاشاعت روزنامے’’ھارٹز‘‘ کی رپورٹ میں مطابق اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) کے اسپیکر رووین ریولین نے اعلانیہ طور پر آرمینیائی باشندوں کے قتل عام پر مباحثے کے لیے پارلیمنٹ کااجلاس طلب کیا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیلی کنیسٹ ماضی کی کئی دہائیاں انقرہ اور تل ابیب کے مابین تعلقات خراب ہونے کے خدشے سے آرمینیائی قتل عام پر گفتگو سے گریز کرتی رہی ہے۔ اب دو سال سے دونوں ملکوں کے مابین کشیدہ تعلقات سے پارلیمان کو یہ موقع دے دیا ہے کہ سنہ 1915ء میں ہونے والی اس اجتماعی قتل عام پر غور کرے اور پندرہ لاکھ بے گناہ باشندوں کے قتل عام کی ذمہ داری کسی پرعائد کرے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کیلئےآرمینائی باشندوں کے قتل عام کی اس بحث کو دوبارہ اٹھانا مہنگا ثابت ہو گا۔ جیسا کہ فرانس کے صدر سرکوزی نے آرمینیائی کمیونٹی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس معاملے کو دوبارہ زندہ کیا جس کے رد عمل میں انہیں اپنے حریف ہولنڈا کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین