چوالیس روز بھوک ہڑتال کے بعد غزہ جانے پر رضامندی ظاہر کرکے رہائی پانے والی فلسطینی اسیرہ ھناء الشلبی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی سرکاری حکام اور میڈیکل عملے نے ان کا گھیراؤ کر کے زبردستی بھوک ہڑتال ختم کرنے پر مجبور کیا اور غزہ جانے کا آپشن سامنے رکھا۔
فلسطینی اسیران امور کی وزارت نے ہفتے کے روز اپنے بیان میں بتایا کہ ھناء الشلبی کو اسرائیلی حکومت کے اہلکاروں نے ھناء کو شدید اذیت سے دوچار کیا اور ان کے ساتھ اخلاقی اور قانونی بدتہذیبی کی انتہاء کر دی۔ زبردستی کی انتظامی حراست کے دوران ھناء الشلبی کے صہیونی عقوبت خانوں میں انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔
ھناء الشلبی کا کہنا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے ان کو شدید دباؤ کا نشانہ بنایا اور اور انہیں تین سال تک غزہ کی پٹی جانے کی شرط پر رہا کردیا۔ وزارت اسیران کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ھناء الشلبی کی صحت چوالیس روزہ بھوک ہڑتال کے باعث انتہائی ابتر ہے۔
ادھر سنہ 2002ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی جانب بے دخل کیے گئے فلسطینیوں نے اپنے بیان میں ھناء الشلبی کو بے دخل کیے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔ بیت لحم میں چرچ آف نیٹی ویٹی کے دربدر کیے گئے فلسطینی شہریوں نے ہفتے کے روز جاری بیان میں کہا کہ ھناء الشلبی کو بے دخل کرنے کا فیصلہ بین الاقوامی جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔
دس سال قبل بے دخل کیے جانے والے ان فلسطینی رہنماؤں نے خدشہ ظاہر کیا کہ معاہدے کے مطابق ھناء الشلبی کو تین سال تک غزہ میں رہنا ہے تاہم اسرائیلی حکام اس مدت کے گزرنے کے بعد بھی انہیں واپس اپنے گھر آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین