(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین انروا کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے کہا ہے کہ غزہ شہر کی صورتحال قیامت کے بعد جیسی ہو چکی ہے کیونکہ قابض اسرائیلی فوج نے شہر پر اپنی فوجی جارحیت میں شدت پیدا کر دی ہے۔
ابو حسنہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں اعلان کردہ قحط کے ساتھ ساتھ، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جاری امدادی سرگرمیاں بھی تباہی کا شکار ہیں۔ ان میں صحت کی خدمات، پانی، نکاسی آب کا نظام، کچرا اٹھانے کا انتظام اور پینے کے پانی کی فراہمی سب بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان حالات نے شہر کے باشندوں کو غزہ کے مغربی حصے کی طرف دھکیل دیا ہے جو حد سے زیادہ گنجان اور تنگ ہو چکا ہے۔ وہاں نہ تو کوئی بنیادی خدمت دستیاب ہے اور نہ ہی کوئی محفوظ مقام ہے جس کی طرف وہ ہجرت کر سکیں۔
انروا نے اس سے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ غزہ شہر پر قابض اسرائیل کی جارحیت میں اضافے سے دس لاکھ فلسطینیوں کو ایک اور جبری ہجرت کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ اگر قحط کے دوران مزید فوجی کارروائیاں بڑھیں تو مصائب ناقابلِ برداشت ہو جائیں گے اور عوام کو ایک نئی تباہی کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔
انروا کے مطابق، قابض اسرائیل کی مسلسل بمباری اور جبری انخلاء کے احکامات نے ہزاروں خاندانوں کو ایک بار پھر اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے، وہ بھی خوف، بربادی اور اجڑتے ہوئے مناظر کے سائے میں۔
گزشتہ بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین نے امریکہ کے علاوہ ایک مشترکہ بیان میں فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پورے غزہ میں امداد کو بڑے پیمانے پر بڑھانے کا مطالبہ کیا اور قابض اسرائیل سے کہا کہ وہ تمام رکاوٹیں فوری طور پر اور بغیر کسی شرط کے ختم کرے جو امداد کی ترسیل کے راستے میں حائل ہیں۔
سلامتی کونسل کے اراکین نے یہ بھی کہا کہ قابض اسرائیل کو غزہ شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کے اپنے فیصلے سے فوری طور پر دستبردار ہونا چاہیے۔