اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کی شہری آبادی پر کی جانے والی تباہ کن بمباری کی شدید مذمت کی ہے جس کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ یہ بات ان کے ترجمان اسٹیفان دوجاریک نے ایک پریس بیان میں بتائی۔
دوجاریک نے کہا کہ گوتیریس شہریوں کو نشانہ بنانے والی تمام کارروائیوں اور ایسے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں جو جنگ بندی کے معاہدے کو کمزور کرتے ہیں۔ انہوں نے مکمل طور پر سکیورٹی ماحول کو بحال کرنے، تحمل اختیار کرنے اور بین الاقوامی انسانی قانون کے احترام پر زور دیا۔
قبل ازیں وزارتِ صحت غزہ نے اعلان کیا کہ گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی کے مختلف ہسپتالوں میں 104 شہداء کی لاشیں لائی گئیں جن میں 46 بچے اور 20 خواتین شامل ہیں، جب کہ 253 زخمیوں کو طبی امداد دی گئی جن میں 78 بچے اور 84 خواتین شامل تھیں۔ یہ تمام افراد قابض اسرائیل کی تازہ درندگی کے نتیجے میں شہید یا زخمی ہوئے۔
وزارتِ صحت نے بتایا کہ کئی شہداء اور زخمی تاحال ملبے تلے اور سڑکوں پر پڑے ہیں، کیونکہ مسلسل بمباری اور طبی سازوسامان کی شدید قلت کے باعث ایمبولینس اور سول ڈیفنس کی ٹیمیں ان تک نہیں پہنچ پا رہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 11 اکتوبر سے جاری فائر بندی کے معاہدے کے باوجود قابض اسرائیل کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں اب تک 211 فلسطینی شہید اور 597 زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ 482 لاشیں ملبے میں سے نکالی جا چکی ہیں۔
قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر 7 اکتوبر سنہ2023ء سے جاری اس جارحیت نے اب تک 68 ہزار 643 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے جب کہ 1 لاکھ 70 ہزار 655 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ قابض اسرائیل کو امریکہ اور یورپی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس جارحیت کو کھلی نسل کشی قرار دیا ہے جس میں قتل عام، قحط، تباہی، جبری نقل مکانی اور اجتماعی گرفتاریاں شامل ہیں۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی مطالبات اور عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کی کھلی خلاف ورزی کے ساتھ جاری ہے۔
اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پر اس وحشیانہ جنگ نے 2 لاکھ 39 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو یا تو شہید یا زخمی کیا ہے، 11 ہزار سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں جب کہ لاکھوں بے گھر فلسطینی ناقابلِ برداشت انسانی بحران سے دوچار ہیں۔ غزہ کی بنیادی ڈھانچہ، رہائشی عمارتیں اور عوامی سہولتیں بڑے پیمانے پر مٹی کا ڈھیر بن چکی ہیں، اور علاقے کے وسیع حصے عملاً زمین سے مٹا دیے گئے ہیں۔