غزہ(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)فلسطین میں سنہ 1948ء کو صہیونی ریاست کا ہزاروں فلسطینی شہداء کی لاشوں پر قیام عمل میں آیا۔ فلسطینی قوم اس تاریخی المیے کو ‘النکبہ’ کےنام سے یاد کرتے ہیں۔ فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے دوران اسرائیلی اور صہیونی دہشت گردوں نے جس بے دردی سے نہتے فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔آج سے اکہتر برس پیشتر فلسطین میں نہتے شہریوں کے قتل عام کے ان گنت دیگر واقعات میں ‘طنطورہ’ کا قتل عام بھی شامل ہے۔ طنطورہ میں بے گناہ فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام 71 برس قبل ہوا مگر ایسے لگتا ہے کہ اس وحشیانہ عمل کو گذرے ابھی 71 گھنٹے بھی نہیں ہوئے ہیں۔ کیونکہ طنطورہ میں فلسطینیوںکے قتل عام کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔سنہ 1948ء کی جنگ میں صہیونی ملیشیائوں نے تاریخی فلسطین کے 531 گائوں اور شہر صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ 8 لاکھ فلسطینیوںکو جبری ھجرت پر مجبور کیا گیا۔ ان کی املاک اور زمینوں پرغاصبانہ قبضے کیے گئے اور فلسطینی بستیوں کے کھنڈرات پر ایک غاصب اور قابض ریاست کھڑی کی گئی۔الطنطورہ کا محل وقوع الطنطورہ فلسطین کے تاریخی شہر حیفا کےجنوب میں واقع ہے جو شہر سے 24 کلو میٹر اور سطرح سمندر میں 25 کلو میٹر دور ہے۔ اس گائوں کا پرانا نام ‘دور’ بتایا جاتا ہے۔ کنعانی زبان میں اس کا مطلب رہائش گاہ کے لیا جاتا ہے۔ الطنطورہ کا رقبہ 14 ہزار 520 دونم ہے اور اس کے اطراف میں کفرلام، الفریدیسم عین غزال، جسر الزرقاء اور کبارہ کے مقامات واقع ہیں۔ سنہ 1929ء میں اس کی آبادی 750 افراد پر مشتمل تھی اور سنہ 1945ء میں آبادی کی تعداد 1490 نفوس تک پہنچ گئی تھی۔الطنطورہ میں قتل عام الطنطورہ میں فلسطینیوں کا قتل عام 22 اور 23 مئی 1948ء کو ہوا جب غاصب صہیونی جتھوں نے 200 نہتے فلسطینیوں کو تہہ تیغ کر دیا۔ سنہ 2000ء میں یہودی دانشور ‘تھیوڈر کاٹز’ نے الطنطورہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے اہم انکشافات سے پردہ اٹھایا اور اس کی تفصیلات اسرائیلی اخبار ‘معاریف’ میں شائع کی گئیں۔صہیونی ملیشیا نے الطنطورہ قصبے کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور اس کی آبادی کو فلسطین کے دوسرےعلاقوں میں نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ اس وقت آبادی کی تعداد 1728 ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اس جگہ دو یہودی کالونیاں قائم کی گئیں۔فلسطینی مورخ مصطفیٰ کبھا نے اس واقعے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ الطنطورہ کو حیفا کے جنوبی علاقوں میں انتہائی کمزور مقام سمجھا جاتا تھا۔ اس کی کمزوری یہی دراصل یہودیوں کے لیے فلسطینیوں کے قتل عام کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ بحر متوسط کے ساحل پر واقع ہونے کی بہ دولت یہودی شرپسندوں کے لیے یہاں قتل عام بہت آسان تھا۔دوسری جانب اسرائیلی مورخ ٹیڈی کاٹز لکھتا ہے کہ الطنطورہ میں دو دن میں قتل کیے گئے فلسطینیوں کی تعداد 230 تھی۔کاٹز جنہیں الطنطورہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے اعتراف کی پاداش میں حیفا یونیورسٹی سے نکالا گیا کا کہنا ہے کہ شہید کیے گئے فلسطینیوں کی لاشیں کھیتوں کے ایک سیکیورٹی گارڈ یہودی موتی سوکلر کے حوالے کی گئیں۔ اس نے لاشیں گن کر دفن کیں جن کی تعداد 230 تھی۔قتل عام کا خطرناک پہلو الطنطورہ میں قتل عام صہیونی ریاست کے قیام کے اعلان کے ایک ہفتے بعد کیا گیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ صہیونی ریاست کے قیام کے لیے صہیونی دہشت گردوں نے فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کرنا شروع کر دیا تھا۔اس کے ایک ماہ بعد دیر یاسین میں فلسطینیوں کے قتل عام کا واقعہ پیش آیا۔ ان تمام واقعات سے فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام اور ان کی نسل کشی صاف ظاہر ہوتی ہے۔ وحشیانہ قتل عام کا مقصد یہ تھا کہ خون خرابےکے ذریعے فلسطینیوں کو اپنے گھر بارچھوڑ کر یہودیوں کے حوالے کرنے پر مجبور کیا جائے۔آج کی صورت حالالطنطورہ گائوں کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں پر صدیوں پرانی عمارتیں موجود تھیں مگر اب اس کا نقشہ بدلچکا ہے۔ یہاں پر سنہ 1882ء میں آل الیحییٰ نامی ایک مقامی فلسطینی نے محل نما گھر تعمیر کیا۔ اس کے علاوہ ایک پرانا قلعہ، ایک پرانا کنواں اور چند پرانی عمارتیں بچی ہیں۔ الطنطورہ کھجور کے درختوں کی وجہ سے مشہور ہے اور پانی کے چشموں کی وجہ شہرت رکھنے والے گائوں کو صہیونیوں نے فلسطینیوں کے قتل عام کا گھاٹ بنا ڈالا۔