(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) العربي الجديد نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں پیدا ہونے والے بحران کی وجہ صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی آخری لمحے میں معاہدے میں تبدیلی کی کوشش تھی۔ نیتن یاہو نے نو زخمی صیہونی قیدیوں کے ناموں کو معاہدے کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کی۔
ذرائع کے مطابق، نیتن یاہو کی جانب سے پیش کی گئی اس شرط پر حماس نے رضامندی ظاہر کی لیکن مطالبہ کیا کہ اس کے بدلے فلسطینی قیدیوں کے کچھ اہم رہنماؤں، بشمول مروان البرغوثی اور احمد سعدات، کے ساتھ ساتھ غزہ کے ایک ہزار شہری قیدیوں کو بھی شامل کیا جائے۔
امریکی کوششیں اور معاہدے پر پیش رفت
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، ایک امریکی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ معاہدے کی تفصیلات پر اختلافات سامنے آئے ہیں، جنہیں حل کرنے کے لیے امریکی سفارت کار کام کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان، جان کربی نے کہا:
"ہم اس مسئلے سے آگاہ ہیں اور اسرائیلی حکومت سمیت خطے کے دیگر شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان اختلافات کو جلد حل کر لیا جائے گا اور معاہدہ اس ہفتے کے دوران عملی شکل اختیار کرے گا۔”
نیتن یاہو کی تاخیری حربے
نیتن یاہو کے دفتر نے دعویٰ کیا کہ حماس معاہدے کے طے شدہ نکات سے پیچھے ہٹ رہی ہے اور آخری لمحات میں مزید شرائط شامل کر رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا:
"حماس نے واضح معاہدوں سے انحراف کرتے ہوئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل اس وقت تک معاہدے کو حتمی شکل نہیں دے گا جب تک ثالث اس بات کی تصدیق نہ کریں کہ حماس نے تمام شرائط تسلیم کر لی ہیں۔”
حماس کا موقف
حماس کے ترجمان، جهاد طه، نے اس بات کی تصدیق کی کہ حماس جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر قائم ہے اور اسرائیل کی تاخیری حربوں کو مسترد کرتی ہے۔ انہوں نے کہا:
"ہم نے دوحہ میں طے پانے والے معاہدے اور ثالثوں کے اعلان کے مطابق اپنا جواب دے دیا ہے اور اس پر مکمل طور پر قائم ہیں۔ اسرائیلی دھوکہ دہی اور وقت ضائع کرنے کی حکمت عملی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔”
معاہدے کے مستقبل پر غیریقینی
نیتن یاہو کی جانب سے پیدا کردہ مشکلات کے باوجود، ثالثوں اور حماس نے امید ظاہر کی ہے کہ معاہدے کی تمام رکاوٹوں کو جلد دور کر لیا جائے گا۔ تاہم، اسرائیلی حکومت کی تاخیری پالیسی نے معاہدے کے نفاذ کے حوالے سے غیریقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔