گزشتہ سال نومبر میں آٹھ روز تک جاری رہنے والی اسرائیلی بمباری اور فلسطینیوں کے جوابی راکٹ حملوں پر مشتمل جنگ کے حوالے سے اسرائیلی دعووں کا پول کھل گیا ہے۔ دو اسرائیلی اور ایک امریکی عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے دوران صہیونی میزائل شکن’’آئرن ڈوم‘‘ کی کارکردگی صرف پانچ فیصد رہی ۔ اور اس حوالے سے فلسطینیوں کے سو میں سے 84 راکٹوں کو تباہ کرنے کے اسرائیلی دعوی من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔
یاد رہے کہ صہیونی فوج نےاعلان کیا تھا کہ اس جنگ کے دوران آئرن ڈوم نامی سسٹم نے فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے برسائے گئے 84 فیصد راکٹوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ امریکا کے مالی اور فنی تعاون سے بنائے جانے اس سسٹم نے داغے جانے والے صرف پانچ فیصد راکٹوں کو ہی تباہ کیا۔
عسکری تجزیہ کار اور اسرائیلی فضائیہ کے سابق پائلٹ رووین بدھٹسور کےمطابق ان تینوں تجزیہ کاروں کی تحقیق کے مطابق آئرن ڈوم سسٹم نے حالیہ جنگ کے دوران فلسطینیوں کی جانب سے داغے گئے سو میں صرف پانچ راکٹوں کو تباہ کیا، صہیونی فوج کا یہ دعوی کہ فلسطینی گراڈ طرز کے سو میں سے 84 راکٹوں کو تباہ کیا غلط ہے۔
بدھٹسور کا کہنا ہے کہ ’’اگر کامیاب روکنے کی تعریف یہ کی جائے کہ برسائے گئے راکٹ کے وار ہیڈ کو تباہ کردیا جائے تو یہ نسبت تو انتہائی کم تھی جو لگ بھگ پانچ فیصد بنتی ہے۔
دیگر دو تجزیہ اروں میں ڈاکٹر مردخائے شیفر جو پہلے ویپن ڈویلپمنٹ اتھارٹی ۔ رفائیل میں کام کر چکے ہیں اور میزائیل شکن پیٹریاٹ میزائیل بنانے والی کمپنی ریتیون میں بھی کام کرکے ہیں نے کہا کہ آئرن ڈوم سسٹم کی کامیابی 84 فیصد سے کافی کم رہی ہے۔
اسرائیلی روزنامے ھارٹز میں شائع رپورٹ کے مطابق ان تینوں کی عسکری تجزیہ کاروں کی الگ الگ تحقیقات اور روپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں دکھائی جانے والی فلسطینی راکٹوں کو تباہ کرنے کی ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ آئرن ڈوم نامی اس سسٹم نے کامیابی سے فلسطینی راکٹوں کو تباہ کردیا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان ویڈیو کلپس میں بظاہر کامیاب دکھائی دینے والا یہ نظام اتنا کامیاب نہیں، ویڈیو میں لگنے والی آگ سے تاثر ملتا ہے کہ یہ آگ فلسطینی راکٹوں کے تباہ ہونے کے بعد اٹھ رہی ہے حالانکہ حقیقت میں وہ آگ اس سسٹم کے تحت چھوڑے گئے اپنے میزائلوں میں لگنے والی آگ تھی۔
بدھٹسور نے کہا کہ ہر ویڈیو میں رات کے وقت آگ لگی ہوئی دکھائی گئی، جبکہ دھواں بلند ہونے کا وقت دن ا تھا، اگر یہ کارروائیاں کامیاب ہوتیں اور فلسطینی راکٹوں کے وار ہیڈ تباہ ہوئے ہوتے تو آگ اور دھواں تو دکھائی دیتے مگر اکیلے اکیلے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکام کو فلسطینی راکٹوں حملوں کے باعث گھروں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے گھروں کو چھوڑنے کی 3200 درخواستیں موصول ہوئیں۔ اگر اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق صرف 58 راکٹ رہائشی علاقوں میں گرنے کی صورت میں اتنا بڑا نقصان کیسے ہوتا۔
دھٹسور نے بتایا کہ اسرائیل نےخلییج کی جنگ اول میں دعوی کیا تھا کہ پیٹریاٹ میزائیل نے عراق کے 96 فیصد راکٹوں کو کامیابی سے روک لیا ہے جبکہ اس وقت پروفیسر بوسٹول نے صہیونی حکومت کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے بتایا کہ پٹریاٹ سسٹم کی راکٹ حملوں کو ناکام بنانے کے حوالے سے کارکردگی صفر رہی ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین