(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی مزاحمتی قیادت کے ذرائع نے انکشاف کیا گیا ہے کہ صیہونی دہشتگردی کا شکار شہر غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پاچکا ہے، لیکن اس کا باضابطہ اعلان ابھی زیرِ التوا ہے کیونکہ عملدرآمد کے طریقہ کار پر اتفاق ہونا ابھی باقی ہے۔
ذرائع نے معروف عربی نیوز ویب سائٹ "العربی الجديد” کو دیے گئے خصوصی بیان میں کہا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے آخری لمحات میں معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ پہلے مرحلے میں رہائی کے لیے منتخب کیے گئے 33 قیدیوں کی فہرست میں فوجی قیدیوں کو بھی شامل کیا جائے۔ حالانکہ یہ طے ہوا تھا کہ ان قیدیوں کی رہائی بعد کے مراحل میں ہوگی، جس کے تحت پہلے مرحلے میں غیر قانونی صیہونی ریاست 1000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گی۔
قیادت نے انکشاف کیا کہ صیہونی مذاکراتی وفد نے قیدیوں کی رہائی کے پہلے مرحلے میں تمام طبقات کی نمائندگی شامل کرنے کا بہانہ بنا کر مذاکرات کو پیچیدہ بنایا، جن میں شہری، فوجی، مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔ معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جن میں بچے، خواتین، فوجی خواتین، بزرگ اور بیمار افراد شامل ہوں گے۔
قیادت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کو فوجی وردی میں گرفتار کیے گئے قیدیوں میں شاباک اور یونٹ 8200 انٹیلیجنس کے افسران شامل ہیں، ساتھ ہی ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر بھی، جو کہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان قیدیوں کی رہائی پر خصوصی شرائط بعد میں طے کی جائیں گی۔
قیادت نے مزید کہا کہ معاہدے کے اعلان میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کی جانب سے انخلاء کے نقشوں کی فراہمی کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ صیہونی وفد اس تاخیر کو اپنی "سیکیورٹی ضمانتوں” کے جواز کے طور پر پیش کر رہا ہے، جس میں غزہ کے اہم مقامات پر ان کی موجودگی کا قیام شامل ہے، جب تک معاہدے کی تمام شقوں پر عملدرآمد مکمل نہ ہو جائے۔