انسانی حقوق کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر نومبر کے وسط میں مسلط کردہ اٹھ روزہ جنگ کےمضر اثرات کئی ماہ تک برقرار رہ سکتے ہیں۔مرکز اطلاعات فلسطین کے اوچا کے رام اللہ میں ہوئے اجلاس میں انسانی حقوق کی کئی دیگر تنظیموں کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے حملوں کے بعد تباہ حال شہر کی بحالی کے لیے جنگ بنیادوں پر امدادی کاموں کی ضرورت ہے لیکناسرائیلی فوج کے حملے غزہ کی پٹی میں بحالی کے کاموں میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فائر بندی اور معاہدے میں غزہ کے کاشت کاروں کو اپنے کھیتوں میں کام کی آزدی دینے کی ضمانت کے باوجود کسانوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے اور اسرائیلی فوج کسانوں پر مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کا یہ طرز عمل غیرقانونی اور غیر اخلاقی ہے۔
اقوام متحدہ کی تنظیم نے صہیونی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی میں ماہی گیروں پر ہونے والے حملوں کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے ماہی گیروں کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔
عالمی ادارے کی رپورٹ میں چودہ سے اکیس نومبر تک جاری صہیونی حملوں کے غزہ کے شہریوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور کہا ہے کہ ان حملوں کے منفی اثرات کئی ماہ تک برقرار رہ سکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ غزہ کے شہریوں کو اس وقت سخت سردی میں ہنگامی بنیادوں پر مکانوں کی ضروت ہے۔ تباہ ہونے والے اسکولوں کی تعمیر کے لیے بھی فوری اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن اسی اثناء میں ہونے والے صہیونی حملے سخت خطرناک ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج کے آٹھ روزہ حملوں میں غزہ کی پٹی میں عام شہریوں کے 300 مکانات مسمار ہوچکے ہیں۔
درجنوں اسکول، اسپتال اور دیگرعمارتوں کی تعمیر کے لیے تعمیراتی سامان کی غزہ کی پٹی میں منتقلی بھی ضروری ہے۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی کی تمام راہداریاں کھولنے کے اعلان کے باوجود راہ داریاں تاحال بند ہیں۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین