اسرائیل نے محصور فلسطینی شہرغزہ کی پٹی میں جنگ مسلط کرنےکے لیے عالمی اورعلاقائی سطح پر ایک مرتبہ پھر رائے عامہ ہموارکرنا شروع کردی ہے۔
اس مہم کے تحت اسرائیل کے سفارتی اور ابلاغی حلقے اسلامی تحریک مزاحمت[حماس] کے خلاف خاص طورپر زہریلا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پراسرائیلی سفارت کاروں نے یہ مہم برپا کر رکھی ہے۔ اندرون ملک اسرائیلی میڈیا نے غزہ کی پٹی میں حماس کی حکومت کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے پیالی میں طوفان اٹھا رکھا ہے۔
اسرائیلی فوج کی ویب سائیٹ پر شائع ایک رپورٹ میں غزہ کی پٹی کی موجودہ سیکیورٹی صورت حال اور وہاں سے اسرائیل مخالف سرگرمیوں کا بھی تذکرہ ملا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں تمام فلسطینی مزاحمت کار گروپ اسرائیل کے خلاف کسی بھی وقت لڑائی کے لیے تیار ہیں۔ مصرکی جانب سے حماس پر دباؤ ڈالنے اور غزہ حکومت کے لیے سامان کی ترسیل غیرمعمولی سطح پرکم کرنے کے بعد اسرائیل کے لیے حماس اور دیگر جنگجو گروپوں سے نمٹنا نسبتا آسان ہو گیا ہے۔
رپورٹ میں خبردارکیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیل پرراکٹ حملوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اسرائیلی فوج کو اس کا جواب دیناپڑے گا چاہے اس کے لیے باقاعدہ جنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
صہیونی عسکری حلقوں کا ماننا ہے کہ حماس کے خلاف نئی جنگ ہر اعتبار سے ماضی کی تمام جنگوں سے مختلف ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اب حماس کے پاس ایسے مہلک ہتھیاربھی موجود ہیں جو ماضی میں نہیں تھے۔ ان میں "ایم 75” میزائلوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
فوجی حکام کا مزید کہنا ہے کہ ملٹری کے میدان میں حماس ایک بڑی قابل ذکر تنظیموں میں شامل ہوچکی ہے۔ تنظیم کی فوجی طاقت میں ہرآنے والے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس اعتبارسے اگر حماس کے خلاف کوئی نیا معرکہ شروع کیا جائے تو یہ ایک بالکل ہی نئے انداز کی جنگ ہو گی۔
اسرائیل کے جنوبی ریجن کی کمان میں شامل ایک فوجی افسر کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس "ایم 75” ماڈل کے میزائلوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ میزائل 70 کلو میٹرطویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ غزہ کی پٹی سےاگر یہ راکٹ داغا جائے تو یہ "تل ابیب کبریٰ” المعروف گون ڈان شہر تک پہنچ سکتا ہے۔
ایک دوسرے فوجی افسرکا کہنا ہے کہ حماس کے پاس تیار حالت میں”ایم 75″ میزائل اتنے زیادہ تو نہیں ہیں البتہ ان کی تیاری کا کام نہایت سرعت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ ان میزائلوں کے علاوہ حماس کے پاس ٹینک شکن، طیارہ شکن حتیٰ کہ جدید مواصلاتی نظام بھی موجود ہے، جو ماضی میں نہیں تھا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین