(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر اپنے موافقت میں کہا کہ یہ فیصلہ ان کی ذمے داری ہے، کیونکہ "غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل حماس کی فوجی قوت کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے”۔
ساعر نے کہا کہ "غزہ میں اسرائیلی شہریوں کے زندہ رہنے کی اہمیت غیر قانونی صیہونی ریاست کے لیے ہے، خاص طور پر جب کئی مہینے گزر چکے ہیں اور غیر قانونی صیہونی فوج ایک اسرائیلی یرغمالی کی زندگی بچانے یا انہیں زندہ باہر نکالنے میں ناکام رہی ہے”۔
اسرائیلی چینل 12 سے بات کرتے ہوئے ساعر نے کہا کہ "غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کئی مہینوں تک ایک بھی یرغمالی کو زندہ واپس نہیں لا سکی”، اور اس نے "حکومت پر ایک بھاری ذمہ داری ڈالی”۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اگرچہ حماس کو شدید دھچکے پہنچائے گئے ہیں، لیکن ہم جنگ کے مقاصد حاصل نہیں کر سکے”۔ ساعر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ فیصلہ مشکل تھا، لیکن کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ برا اور مشکل ہوتا ہے”۔
ساعر نے کہا کہ "یہ معاہدہ 7 اکتوبر کے واقعات کے نتیجے میں ہے، جس کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ "یہ معاہدہ فلسطینی دہشت گردوں (اسیران فلسطینی) کی رہائی کی قیمت پر ہے، جن میں سے کچھ، ماضی کے تجربات کے مطابق، دوبارہ دہشت گردی کی طرف واپس جا سکتے ہیں”۔
ساعر نے وضاحت کی کہ یہ معاہدہ "اسرائیلیوں کو بچانے کے لیے ضروری ہے”، اور "غیر قانونی صیہونی ریاست کا مقصد ان کے یرغمالیوں کو واپس لانا ہے”۔ انہوں نے کہا کہ "آج ان کے اغوا ہوئے 15 مہینے اور 10 دن ہو چکے ہیں۔ ہم فوری طور پر کارروائی کر رہے ہیں اور بڑی محنت کی گئی ہے تاکہ زیادہ تر یرغمالیوں کو واپس لایا جا سکے۔ لیکن چھ مہینے تک ہم کسی بھی یرغمالی کو زندہ واپس لانے میں ناکام رہے”۔
ساعر نے حماس کی جنگی حکمت عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "حماس اپنی کامیابی پر جشن منائے گی، لیکن وہ دہشت گرد فوج سے گوریلا جنگ کی تنظیم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کو شدید دھچکے لگنے کے باوجود ہم اپنے جنگی مقاصد حاصل نہیں کر سکے”۔
آج جمعہ کو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتنیاہو کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ "غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے کابینہ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے”۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ معاہدہ جنگ کے مقاصد کو پورا کرنے میں معاون ہے، اور فلسطینی اسیران کی رہائی کے لیے ایک فہرست عوامی طور پر پیش کی جائے گی تاکہ اس پر اعتراضات جمع کیے جا سکیں۔