غزہ(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)وسام لولو سے اپنی پانچ سالہ بیٹی عائشہ کے متعلق بات کرتے ہوئے اپنے آنسووں پر قابو نہ رکھ سکے ، وہ اس سوچ میں گم تھے کہ کیسے اسکے چھوٹے سے جسم نے درد اور تکلیف کو برداشت کیا ہوگا۔کینسربہن بھائیوں میں اسکا دوسرہ نمبر تھا،ایک سال پہلے دماغ کے کینسر کی تشخیص سے پہلےغزہ کی پٹی کے البریج پناہ گزین کیمپ میں عائشہ نے اپنے خاندان کے گھر کو خوشیوں اور قہقوں سے بھر دیا تھا ۔گہرے دکھ نے عائشہ کے خاندان کو تباہ کر دیا تھا۔ اسکے والدین اپنی بیٹی کو پیش آنے والے ناگہانی صدمے سے ابھی تک پریشان ہیں۔ انکے آنسو اور استدعا قابض اسرائیلی حکام کو قائل کرنے کے لیے کافی نہیں تھے کہ انکی بیٹی کو بھی دنیا میں دوسرے بچوں کی طرح مناسب علاج کی ضرورت ہے۔انسانیت کے خلاف جرائم وسام نے مرکز اطلاعات فلسطین کو بتایا کہ قابض اسرائیلی حکام نے محاصرے کی وجہ سےغزہ کے ہسپتالوں میں کینسر کے مریضوں کے لیے ضروری آلات کی کمی کے بعد اسے اور اسکی بیوی کو اپنی بچی کے ساتھ یروشلم جانے سے روک رکھا ہے۔اس نے کہا کہ میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں نے بار بار پرمٹ کے لیے درخؤاست دی اور نامنظوری کے باوجود نا امید نہیں ہوا۔اسکے باپ نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے بچی کے ساتھ جانے کے لیے اسکی 70 سالہ دادی سمیت دس سے زیادہ رشتہ داروں کے نام بھیجےجسمیں اسکی 55 سالہ خالہ، 50 سالہ ماموں اور دوسرے بہت سے لوگ تھے لیکن اسرائیلی حکام نے فیصلہ کیا کہ اسے اکیلی بھیجا جائے۔ مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والے ایک اجنبی نے رضاکارانہ طور پر عائشہ کو بیت حانون راہداری سے ہسپتال منتقل کر دیا ۔ جہاں عائشہ کے دماغ سے سرجری کے ذریعے ٹیومر کو علیحدہ کیا گیا اور عائشہ قومہ میں چلی گئی۔جب عائشہ اٹھی ، اس نے رونا شروع کر دیا اور اپنہ ماں کا پوچھنا شروع کر دیا جب تک اسے دو ہفتے قبل غزہ کی پٹی میں واپس بھیج دیا گیا تھا۔مایوس کن واپسیاسکے خاندان کو ابھی بھی امید تھی کہ عائشہ بہتر ہو سکتی ہے۔ البتہ اسکی صحت کی سنگین صورتحال کے باوجود عائشہ کو بیت حانون چوکی سے ایمیبولینس سے کسی بھی دوسرے مریض طرح بیت حانون چوکی منتقل کرنے کی بچائے ایک چھوٹی گاڑی میں بھیجا گیا جو سفری بیگ منتقل کرنے کے کام آتی ہے۔عائشہ کو دو ہفتے قبل غزہ میں الرنتيسي ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ 17 مئی تک اپنی آخری سانس لینے تک قومہ میں رہی۔ اس کے باپ نے تصدیق کی کہ اسے جان بوجھ کر طبی غفلت کا نشانہ بنایا گیا اس نے اکیلے ہی بیماری کا مقابلہ کیا تھا۔ایک لمبی سانس کے بعد اسکے باپ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسکی بیٹی کو صحت کی سہولیات تک مناسب رسائی میسر نہیں تھی، اس نے مزید کہا کہ جو اسکی بیٹی کے ساتھ ہوا وہ دنیا میں کسی بچے کے ساتھ نا ہو۔