(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) قابض صہیونی فوج نے زندہ بچ جانے والے فلسطینی خاندان کے 100 افراد کو 1 مکان میں جمع کر کے بمباری کردی جس کے نتیجے میں 29شہادتیں اور متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔
مقبوضہ فلسطین کے محصور علاقے غزہ میں 2009 میں صہیونی بربریت کا نشانہ بننےوالے فلسطینی السمونی خاندان کے بے رحمانہ قتل عام کو بارہ برس بیت گئے جس میں بچے اور خواتین سمیت 29افراد کو ظلم وجبر کی مثال قائم کرتے ہوئے صہیونی فوج کی جانب سے محاصرہ کر کے شہید کیا گیا تھا۔
صہیونی فوجی اہلکاروں نے غزہ میں اپنا تسلت قاہم کرنے کےلیے نہتے فلسطینی خاندان کے افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور ان کے مکانات کو تباہ کر دیا تاہم بچ جانے والے100 افراد کو 1 مکان میں جمع کر کے بمباری کردی جس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔
فلسطینی خاندان کے تباہ شدہ گھر کے باہر غاصب صہیونی فوج کے پہرے کے بعد زندہ بچ جانے والوں تک رسائی ممکن نہ ہونے کی صورت میں مزید شہادتیں ہوئین تاہم 3 دن کے وقفے سے ریڈ کراس کے عملے نے زندہ بچ جانے والے باقی زخمیوں کوہسپتال منتقل کیا جبکہ صہیونی فوج کے ٹینکوں سے ہونے والی بمباری کے نتیجے میں شہداکی لاشوں کو فوجی انخلا کے 13دن بعدملبے تلے سے باہر نکالا جا سکا۔
اس قتل عام کے بعدصہیونی بلڈوزروں نے السمونی خاندان کے اس علاقے کی شکل بدل کر رکھ دی اور متعدد مکانات کو توڑ تے ہوئے زرعی اراضی کو کاشت کےلیے ناقابل استعمال کردیا۔
تاہم صہیونی عدالتوں کی جانب سے مئی 2012 میں اسرائیل کی فوجی عدالت نے السمونی خاندان کے 29 افراد کی شہادتوں میں اسرائیلی فوج کے ملوث ہونے کی تفتیشی فائل بند کردی اور اس فلسطینی خاندان پر بمباری کرنے والے صہیونی افسران کو ذمہ دار نہ ٹھہراتے ہوئے فلسطینی خاندان کے خلاف فیصلہ جاری کر دیا۔
واضح رہے کہ2009 میں صہیونی پر تشدد کارروائی کا نشانہ بننے والے فلسطینی خاندان کے 29شہدا میں مرد خواتین سے لےکر شیر خوار بچے بھی شامل تھے۔