یحییٰ عیاش اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈ کے مشہور ترین کمانڈر اور فلسطین میں غاصب صہیونیوں کے خلاف جدید انداز کے بم دھماکوں اور فدائی حملوں کے موجد شمار ہوتے ہیں اور یہ فلسطین کے پہلے نوجوان انجینیرہیں جنہوں نے صہیونی دشمن کے خلاف جہاد آزادی میں حصہ لیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
یحییٰ عیاش مقبوضہ فلسطین میں مغربی کنارے کے صوبے سلفیت کے قصبے رافات میں 6مارچ 1966کو پیدا ہونے والےوہ فلسطینی مجاہد جنہیں برزیت یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن ہونے کی سعادت حاصل کر نے والے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کےعسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈ کے مشہور ترین کمانڈر اور فلسطین میں غاصب صہیونیوں کے خلاف جدید انداز کے بم دھماکوں اور فدائی حملوں کے موجد بھی کہلائے جس کے باعث قابض اسرائیلی انہیں ملک الموت کا نام بھی دیا کرتی تھی ۔
1992سے قابض حکام نے ان کا تعاقب اس وقت شروع کردیا جب کہ تل ابیب کے علاقے میں ایک کار بم دھماکے میں یحییٰ عیاش کے ملوث ہونے کے شواہد ملےاس کارروائی کے بعد صہیونیوں پر یکے بعد دیگرے کئی اور کامیاب حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں صہیونیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے پیچھے یحییٰ عیاش پیش پیش رہےاور متعدد اسرائیلی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
1992 میں یحییٰ کی شادی ہوئی اور1 بیٹی کے علاوہ یحییٰ کی شہادت کے دو روز بعد ان کے ہاں ایک بیٹے نے جنم لیا جس کانام ان کی نسبت سے یحییٰ عبداللطیف عیاش رکھا گیا۔
15 فروری 1994 کو ہونے والے الخلیل میں واقع ابراہیمی مسجد کے قتل عام کے رد عمل پر انہوں نے عفولہ شہر میں صہیونیوں کے بس اسٹاپ کو نشانہ بناتے ہوئے3 فوجی اور8 صہیونیوں کو جہنم واصل کیا تاہم 300صہیونی شرپسند اس کارروائی میں زخمی ہوئے۔
1994 میں ہی یحییٰ کی کارروائی جس میں ان کے ساتھی صالح نزال نے جسم پر بارودی جیکٹ پہن کر خود کش دھماکے میں شہادت پائی اور 22صہیونیوں سے سر زمین فلسطین کو پاک کر تے ہوئے 40 سے زائد صہیونیوں کو زخمی کر نے کا باعث بنے تاہم اس کارروائی نے تو جیسے اسرائیلیوں میں آگ ہی لگادی صہیونی زندانوں میں قید حماس کے کارکنوں پر مزید وحشیانہ تشدد کی انتہا کردی گئی تاکہ وہ یحییٰ کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کری اور ان کا سراغ مل سکے ساتھ رافات قصبے کے ساتھ فلسطین میں یحییٰ کی تلاش کا کوئی کونا نہ چھوڑا گیا اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن برطانیہ کا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس آگیا اور ہر سمت صہیونی اہلکار وں کی نفریاں یحییٰ عیاش کی بو سونگھتی پھر رہی تھیں سوال یہ تھا کہ یحییٰ آخر کہاں ہے ؟تاہم اسرائیلیوں کا یحییٰ کو زندہ یا مردہ کسی بھی حالت میں پکڑنے کا ایک ہی ہدف رہ گیا مگر یحییٰ کی اسرائیل مخالف کارروائیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ اس شان سے آگے بڑھا کہ ان کے بعد ان کی زندگی اور صہیونیوں کے خلاف ان کی بہترین حکمت عملی اور منصوبہ سازی پر مشتمل بم باری کی کامیاب کارروائیوں پر متعدد زبانوں میں کتابیں لکھی گئیں۔
مغربی کنارے میں شدید تعاقب کے نتیجے میں یحییٰ نے 1994 کے آخر میں اپنی سرگرمی کا مرکز غزہ کی پٹی میں منتقل کردیا جہاں سے انہوں نے اسرائیلی حکام سمیت پولیس فوج،اور تمام حساس اداروں کو ایسے جال میں کسا کہ مرکزی کردار یحییٰ اسرائیلیوںکو ملک الموت دکھائی دیتےتاہم یحییٰ عیاش کی خود کش بمباری منصوبوں اور مختلف انداز سے بم دھماکوں میں صہیونیوں کی اتنی بڑی تعداد کو نقصان پہنچا کہ صہیونی ادارے یحییٰ کے سائے سے بھی خوف کھانے لگے اور ایک روز 5جنوری کی صبح اللہ رب العزت کے بلاوے پر یحیی عیاش بالآخر شہادت کے عالیٰ مقام پر فائز ہوکر اپنی زندگی کا بھرپور مقصد پورا کر گئے۔
یحییٰ شہادت سے قبل اپنے ایک دوست کے گھر بیت لاہیا میں خفیہ طور پر موجود کبھی کبھار اپنے والد سے رابطے میں تھے جس کا سراغ لگا کر صہیونی خفیہ ایجنسی شاباک نے انکے فون کا پتہ لگا کر فون میں بارودی مواد نصب کیا جس کے دھماکے سے پھٹنے کے باعث یہ فلسطینی طلسماتی مجاہد یحییٰ عیا ش ابدی نیند سو گیا۔
اس طلسماتی بے خوف اور بہادر فلسطینی مجاہد کی وفات پر ایک لاکھ سے زائد فلسطینیوں نے غزہ میں ان کے جنازے میں حصہ لیا اور احتجاجی مارچ فلسطین کے بہت سے علاقوں میں پھیل گیا۔دوسری جانب اسرائیلیوں نےیحییٰ کے خوف سے گھٹتی ہوئ سانسوں کے بحال ہونے کا جشن منایا ،مگر یہ طے ہے کہ یحییٰ عیاش اپنے پیچھے ہزاروں یحییٰ عیاش چھوڑ گیا جو فلسطین کی آزادی تک صہیونیوں کی نسلیں تباہ کرتے رہیں گےجبکہ اپنی سائنسی معلومات اور تکنیکی مہارت سے فلسطینی تحریک مزاحمت کو جو ایک نئی جہت دی اس کے بعد قضیہ فلسطین کے لیے ان کی خدمات کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔