(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) معروف یہودی مورخ آئزک ڈوشر کہتے ہیں کہ جو لوگ اسرائیل کو ایک غاصب ریاست سمجھتے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہودی شوق سے نہیں آئے بلکہ زمانی جبر انھیں فلسطین کھینچ کے لایا۔
یوں سمجھ لیجیے کہ ایک یہودی نے جان بچانے کے لیے جلتی عمارت سے چھلانگ لگائی اور اتفاقاً نیچے کھڑے فلسطینی پہ جا گرا۔ یوں وہ فلسطینی بھی اچھا خاصا زخمی ہوگیا۔ ایسے حالات میں آپ چھلانگ لگانے والے کو کتنا قصور وار ٹھہرائیں گے؟
آئزک ڈوشر کی دلیل میں خاصا وزن ہے مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی، جب یورپ کی جلتی ہوئی عمارت سے جان بچانے کے لیے یہودی نے نیچے چھلانگ لگائی تو جو فلسطینی اس کے بوجھ تلے دب کر ہڈیاں تڑوا بیٹھا اس سے معذرت کرنے یا مرہم پٹی کے بجائے اسے مارنا کیوں شروع کردیا اور پھر اس گرنے والے یہودی کی چوتھی نسل اس فلسطینی کی چوتھی نسل کو کیوں مار رہی ہے؟
احساسِ جرم بھلے انفرادی ہو کہ اجتماعی اس سے دو طرح سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یا تو آپ یہ اعتراف کرکے دل ہلکا کرلیں کہ مجھ سے زیادتی ہوگئی اور اب میں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ایک احساسِ جرم کو دبانے کے لیے اس پر دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں جرم کا بوجھ رکھتے چلے جائیں اور آخر میں ایسے نفسیاتی مریض بن جائیں جو اس احساس سے ہی عاری ہو کہ کیا جرم ہے اور کیا جرم نہیں۔
پہلا گروہ جس نے نازی جرائم میں شرکت یا خاموش کردار ادا کرنے کا کھلا اقبال کرکے ذہنی کش مکش سے نجات حاصل کرلی، وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جرمن قوم تھی۔ مغربی جرمنی نے نہ صرف نازی نظریے کو کالعدم قرار دیا بلکہ ہٹلر کے ستم گزیدہ یہودیوں کو ان کی املاک لوٹائیں اور متاثرین کو اسرائیلی ریاست کی معرفت لگ بھگ پانچ ارب ڈالر معاوضہ بھی ادا کیا۔ مگر کیا ستم ظریفی ہے کہ نازیوں کا نشانہ بننے والے یہودیوں نے کنسنٹریشن کیمپوں سے چھوٹنے کے تین برس کے اندر ہی اپنی مظلومیت خود غرضی اور ظلم کے ہاتھ فروخت کردی اور فلسطینیوں کو اپنی مجبوریاں سمجھانے کے بجائے انہی کے سینے پرچڑھ بیٹھے۔ اپنی بحالی کی بنیاد فلسطینیوں کی بے گھری پر رکھی اور دور دور تک احساسِ ندامت بھی نہیں۔
صیہونی اسرائیلی کہتے ہیں کہ انھیں احساسِ جرم کیوں ستائے۔ وہ تو اپنے آبا کی زمین پر دوبارہ آن بسے ہیں۔ یہ فلسطینی تھے جنہوں نے ساڑھے تین ہزار سال پہلے یہودیوں کی چھوڑی زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ ہم نے تو بس انیس سو اڑتالیس میں قبضہ چھڑایا ہے۔ کیا اپنی زمین واپس لینا اتنا ہی بڑا جرم ہے؟
اب میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ مورخ آئزک ڈوشر کا نظریہِ مجبوری مانوں یا صیہونیت کا نظریہِ سینہ زوری۔ اگر بیک وقت دونوں نظریے بھی تسلیم کرلوں تب بھی دونوں نظریات میں معذرت یا افہام و تفہیم کی روح کا شائبہ تک نہیں۔ کیا یہ کسی مبنی بر حق قوم کی ثابت قدمی ہے یا پھر احساسِ جرم کو دبانے کے لیے مسلسل کوشاں قوم کی اکڑ۔ مجھے تو پیروں کے نشانات ثابت قدمی سے زیادہ احساسِ جرم کی پیداوار اکڑ کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔
کیا یہ احساسِ جرم سے نگاہیں چرانے کی کوشش نہیں کہ ہر اسرائیلی بچے کو ہوش سنبھالتے ہی گھر اور اسکول میں ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ یہودی تاریخی اعتبار سے دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے۔ فلسطینی پیدائشی قاتل ہیں اور ان کی یہودیوں سے نفرت بلا جواز ہے۔ فلسطینی ہماری طرح کے انسان بھی نہیں۔ اب جب ایک بچہ اس طرح کی باتیں مسلسل سنتا سنتا جوان ہوگا تو اس کا رویہ فلسطینوں سے کس طرح کا ہوگا۔ یہ جاننے کے لیے ارسطو ہونا بالکل ضروری نہیں۔
ایک بوڑھے اسرائیلی کو تو خیر جانے دیجئے۔ نفرت کی گھٹی پر پلنے والی نئی نسل کا کیا حال ہے اس کی ایک مثال خوبرو ایلت شاکید ہے جو اسرائیل بننے کے اٹھائیس برس بعد پیدا ہوئی۔ یونیورسٹی گریجویٹ اور کمپیوٹر انجینئر ہے۔ اس وقت نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہابیت ہایہودی(یہودی مادرِ وطن)کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ (کنیسٹ)کی رکن ہے۔ گذشتہ ہفتے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر یہ محترمہ رکنِ پارلیمان کیا لکھتی ہیں۔
’’ ہر دہشت گرد کے پیچھے بیسیوں ایسی عورتیں اور مرد ہیں جن کی مدد اور تائید کے بغیر وہ دہشت گرد نہیں بن سکتا۔ چنانچہ یہ سب کے سب لوگ مسلح جنگجو کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ اور جو جو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنا اس کا خون ان سب کی گردن پر ہے۔ ان میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جو اپنے دہشتگرد بچوں کی لاشوں کو پھولوں اور بوسوں کے ساتھ جانبِ جہنم رخصت کرتی ہیں۔ انصاف یہی ہے کہ ان ماؤں کو بھی ان کے بیٹوں کے ساتھ روانہ کردیا جائے۔ اور ان کے گھر بھی مسمار کردیے جائیں جہاں رہتے ہوئے وہ سانپ پیدا کرتی ہیں۔ بصورتِ دیگر یہ سنپولیے ہی پیدا کرتی رہیں گی‘‘۔
(مذکورہ تحریر نازی کنسنٹریشن کیمپوں سے زندہ بچ نکلنے والوں کی نئی نسل کے جذبات سے زیادہ ہٹلر کی سوانح حیات ’’ مین کیمپف ’’ کا کوئی اقتباس لگتا ہے)۔
ایلت شاکید کی اس تحریر کو دو گھنٹے کے اندر فیس بک پر ایک ہزار سے زائد اسرائیلیوں نے شئر اور پانچ ہزار سے زائد نے لائیک کیا۔ سوچئے کہ ایک دن کنیسٹ کی یہ رکن ایلت شاکید وزیرِاعظم بن جائے تو پھر؟
چلیے مان لیا کہ ایلت کی تحریر کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئیے کیونکہ یہ اس دن لکھی گئی جب تین اغوا شدہ اسرائیلی نو عمروں کی لاشیں غربِ اردن کے کسی ویرانے سے ملیں۔ لیکن اس سے اگلے روز ایک پندرہ سالہ فلسطینی بچے محمد خدیر کی جلی ہوئی لاش ملی۔ تب کیا کسی فیس بک یا ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کسی اسرائیلی نوجوان نے اظہارِ افسوس کیا؟ اگر کیا بھی ہوگا تو اسے اتنے لوگوں نے شئیر نہیں کیا ہوگا جتنی محمد خدیر کی وہ تصویر شئیر ہوئی جس کے نیچے لکھا تھا ’’نوعمر فلسطینی دہشت گرد‘‘۔
اور جب اسرائیلی سیکیورٹی اہلکاروں نے محمد خدیر کے امریکا سے چھٹیوں پر آئے ہوئے نو عمر کزن طارق ابو خدیر کو مار مار کے اس کا چہرہ اتنا بگاڑ دیا کہ ہونٹ سوجھ کے باہر کی طرف لٹک پڑے تو اسرائیلی ٹویٹر پر جو تصویر سب سے زیادہ شئیر ہوئی اس میں ایک طرف طارق ابو خدیر کا سوجھا ہوا چہرہ اور ساتھ ہی ایک خنزیر کی تھوتھنی بھی دکھائی گئی۔ تین اسرائیلی نو عمروں کے قتل میں تو نیتن یاہو حکومت کو فوراً حماس کا ہاتھ نظر آگیا اور اس کے نتیجے میں غزہ کے لگ بھگ دو سو فلسطینی اب تک اپنی جانوں کی قیمت ادا کرچکے لیکن محمد خدیر کو زندہ جلانے کے شک میں جن چھ اسرائیلی نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے یہ اطمینان کیا جائے گا کہ کیا واقعی یہی قاتل ہیں؟ کیونکہ ایک مہذب معاشرے میں انصاف و قانون کے تمام بنیادی تقاضے پورے ہونے ضروری ہیں۔
اسرائیل تو ویسے بھی مشرقِ وسطیٰ کے بے ہنگم و وحشی سمندر میں جمہوریت کا جزیرہ مانا جاتا ہے۔ ایسی جمہوریت جس میں یہودیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عربوں کو بھی ووٹ دینے اور اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تل ابیب میں کوئی اسرائیلی یہودی کسی اسرائیلی عرب کو اپنا اپارٹمنٹ کرائے پر دے دے گا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حکومت یہودیوں آبادکار بستیوں کی طرز پر اسرائیلی عربوں کو بھی بستیاں بنانے کی اجازت دے یا پھر انھیں آسان شرائط پر مکان بنانے کے لیے قرضے دیتی پھرے۔
اسرائیل جو غربِ اردن میں انیس سو سڑسٹھ کے بعد سے اب تک سات لاکھ سے زائد یہودی بسا چکا ہے۔ اس جمہوریت میں ایک بھی نئی عرب بستی بسانے کی اجازت نہیں۔ اور اس جمہوریت کے زیرِ تسلط مقبوضہ فلسطینوں کے ساتھ جو رویہ ہے وہ کسی بھی جمہوری ملک کی تاریخ کی انہونی مثال ہے۔
برطانوی زیرِ انتداب فلسطین میں ارگون جیسی صیہونی دہشت گرد تنظیم کا سربراہ مینہم بیگن اسرائیل میں لیخود پارٹی بنا کر یا صابرہ اور شتیلا کے قتلِ عام کا ذمے دار شیرون اگر وزیرِ اعظم بن جائے تو یہ عین جمہوری عمل ہے۔ لیکن حماس اگر شفاف انتخابات کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی میں برسرِ اقتدار آجائے تو یہ دہشت گردی ہے۔
غزہ پر اسرائیل اس لیے مسلسل ایک ہفتے سے پوری فوجی طاقت استعمال کررہا ہے کیونکہ حماس کے شرارتی لونڈے بچارے اسرائیلیوں پر ایک ہزار سے زائد راکٹ برسا چکے ہیں۔ مگر یہ کیسے اللہ مارے راکٹ ہیں جن سے ایک اسرائیلی بھی نہیں مرا۔ ان ’’ریکٹوں’’ سے تو اسرائیل کے وہ بم اچھے جو پھٹتے ہیں تو پورا پورا خاندان اڑا لے جاتے ہیں۔ البتہ حماس کی راکٹ باری کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ خطرے کے اسرائیلی سائرنوں پر بیٹھی گرد صاف ہوگئی۔ اسرائیل کی نئی پود کے لیے تو اتنی فلسطینی جارحیت بھی بہت ہے۔ ایک نو عمر نے ٹویٹر پر لکھا
’’اے عربو تمہارے کرتوتوں کے نتیجے میں صبح ہی صبح بجنے والے سائرنوں سے میری نیند حرام ہوگئی ہے۔ خدا تم سب کو غارت کرے‘‘۔
تو رات میں لکھا ہے’’ آنکھ کے بدلے آنکھ ’’۔ مگر جدید اسرائیل میں اس کی تشریح یوں ہے کہ’’ ایک پلک کے بدلے دوسرے کی کم از کم دونوں آنکھیں اور ہوسکے تو چہرہ بھی‘‘۔
وم چومسکی نے ایک فلسطینی کو یوں نقل کیا ہے۔
’’ تم نے میرا پانی لے لیا، زیتون جلا ڈالے، گھر مسمار کردیا، روزگار چھین لیا، زمین چرا لی، باپ قید کردیا، ماں مار ڈالی، میری دھرتی کو بموں سے کھود ڈالا، میرے راستے میں فاقے بچھا دیے، مجھے کہیں کا نہ رکھا اور اب یہ الزام بھی کہ میں نے تم سے پہلے راکٹ کیوں پھینک دیا‘‘۔
تحریر: وسعت اللہ خان