(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) امریکی حکومت کی ذرائع ابلاغ پر پابندی سے نہ تو فلسطین سے متعلق بیداری کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کے عوام تک فلسطین کا پیغام پہنچانے میں کوئی رکاوٹ پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ ایسے اقداما ت سے امریکی حکومت کے انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے۔
گذشتہ دنوں میڈیا پر چلنے والی خبرو ں میں ایک ایسی خبر نظر سے گذری ہے کہ جس کا عنوان خود میڈیا کے خلاف تھا یعنی یہ خبر تھی کہ امریکی حکومت نے ایسے تمام ذرائع ابلاغ کو بند کرنے اور بلاک کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے جو کسی بھی طور پر ایسی خبریں شائع کرتا ہو جس میں امریکی حکومت کے اقدامات پرتنقید ہو یا یہ کہ پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہو۔ مزید برآں کہ وہ ذرائع ابلاغ کہ جو فلسطین کاز کے حامی ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ فلسطین سے متعلق خبروں کو ترجیحی بنیادوں پر نشر کرتے ہیں ان سب کو امریکی حکومت کے اس پابندی کے فیصلہ کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اس حکم نامہ کے بعد درجنوں ایسے ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس کو امریکہ اور کئی اور ممالک میں بند کر دیا گیا ہے کہ جو امریکی استعماری نظام کی مخالفت کرتے ہیں ، اسرائیل کے جارحانہ اور دہشت گردانہ اقدامات کو دہشت گردی کہتے ہیں، فلسطینی عوام پر ظلم و بربریت کو عوام تک پہنچا کر آگہی فراہم کرتے ہیں ، یہ سب کے سب امریکی حکم نامہ کا نشانہ بنتے ہوئے بند کر دئیے گئے ہیں۔
امریکی حکومت کے اس یکطرفہ اقدام نے ماضی کے ان تمام امریکی صدور اور خاص کرڈونالڈ ٹرمپ کی یا دتازہ کر دی ہے کہ جنہوں نے خود سے ہی یکطرفہ اعلان کر کے بیت المقدس کی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی بندش کے امریکی فیصلہ اور اقدامات نے دنیا بھر میں کئی ایک سوالات کو جنم دیا ہے۔
سب سے اہم سوال تو امریکی نظام حکومت اور بنیا دپر یہی اٹھ رہا ہے کہ امریکہ جو ہمیشہ دنیا کو آزادی اظہار رائے کے نام پر یرغمال بناتا رہا ہے اب خود اس عنوان سے ایک بہت بڑی حق تلفی کا مرتکب ہو رہا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر قد غن لگائی گئی ہے ۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ امریکی حکومت کے اس اقدام سے جہاں امریکہ مخالف سوچ رکھنے والے عوام اور حکومتوں میں امریکہ کے خلاف مزید شدت اور نفرت آ رہی ہے وہاں ساتھ ساتھ امریکی اقدامات سے خود امریکی عوام بھی تنگ آ چکے ہیں اور اس طرح کے اقداما ت کے جو ایک طرف بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں تو دوسری طرف امریکی معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
امریکی عوام کا ہمیشہ سے آنے والی تمام حکومتوں سے ایک اہم سوال رہا ہے کہ آخر امریکی سرکار کس قانون کے تحت امریکی عوام کے ٹیکس سے جمع ہونے والی خطیر رقم کو اسرائیل کے لئے بھیجتی ہے ۔ آخر امریکی عوام کے ٹیکس سے اسرائیل کو اسلحہ اور ٹیکنالوجی کیوں فراہم کی جا رہی ہے ؟ کہ جس کا استعمال اسرائیل نہ صرف فلسطین کے مظلوم عوام کے خلاف کرتا ہے بلکہ پورے خطے میں دہشت گردی اور انارکی کے لئے استعمال ہونے والے وسائل سب امریکی عوام کے ٹیکس سے خریدے گئے ہوتے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات عامہ اور علوم سیاسیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کاکہنا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے ایسے ذرائع ابلاغ کو بند کرنا اور بلیک لسٹ کرنا کہ جو فلسطین کی خبروں کو ترجیحی بنیادوں پر نشر کر تے ہیں یا یوں کہا جائے کہ امریکی نظام حکومت اور پالیسیوں سے اختلاف رائے رکھتے ہیں ، اس فیصلہ سے امریکی حکومت کو صرف اور صرف عالمی سطح پر سبکی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔
امریکی حکومت کی جانب سے ذرائع ابلاغ پر پابندی کے اقداما ت نے ایک مرتبہ پھر امریکی حکومت کی فلسطین دشمن پالیسی کو واضح کر دیا ہے ۔ آج امریکی حکومت ایک طرف اسرائیل کی سرپرستی کر رہی ہے کہ جہاں اسرائیل ستر سال سے مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث ہے، دوسری طرف یہی امریکی حکومت ہے کہ جس نے یمن میں گذشتہ پانچ برس سے عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان کی دہشت گردانہ جنگ کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں ہزاروں بے گناہ یمنی شہری جس میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں موت کی نیند سو چکے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے ذرائع ابلاغ پر پابندی کا اقدام اس لئے کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت کو خطرہ ہے کہ اگر فلسطین اور یمن جیسے مسائل کے بارے میں عوام تک ایک ایسا نقطہ نظر بھی بیان ہوتا رہے کہ جو آزاد ذرائع اور حقائق پر مبنی ہو تو یقینا امریکی ریاستوں میں بسنے والے عوام میں بھی بیداری کی لہر دیکھی جا سکتی ہے ۔ شاید اسی خدشہ کے باعث امریکی حکومت نے ذرائع ابلاغ پر پابندی عائد کی ہے ۔
امریکی حکومت کے اس اقدام سے غرب ایشیاء میں موجود ٹی وی چینل اور ذرائع ابلاغ بری طرح متاثر ہوئے ہیں کہ جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنی خبروں اور پروگراموں میں فلسطین کے مسئلہ کو اہمیت دیتے تھے ۔
غرب ایشیاء سے ہی تعلق رکھنے والے متعدد ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے ذرائع ابلاغ پر پابند ی کا فیصلہ احمقانہ فیصلہ ہے۔ آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور کوئی بھی خبر اور حقیقت دنیا سے مخفی نہیں رہ سکتی ۔ دنیا کے عوام با شعور ہیں اور فلسطین سمیت دنیا میں جہاں جہاں عالمی استعماری قوتوں کا جبر اور ظلم جاری ہے عوام اس کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں۔
فلسطین،لبنان، شام،عراق اور ایران سمیت پاکستان سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی رائے کے مطابق فلسطینی عوام کی گذشتہ گیارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کے مقابلہ میں مزاحمت اور استقامت نے نہ صرف اسرائیل کو بوکھلاہٹ کا شکار کیا ہے بلکہ اسرائیل کی سرپرست ریاست امریکہ بھی شدید بھونچال میں آ چکی ہے ۔
امریکی حکومت کی جانب سے ذرائع ابلاغ پر پابندی کا فیصلہ امریکہ کی خطے میں شکست اور کمزوری کو واضح کر رہا ہے ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ گذشتہ بیس سالوں میں امریکہ اور اسرائیل جو کچھ خطے میں چاہتے تھے اس طرح سے نہیں ہو اہے بلکہ اس کے بر عکس ہو رہا ہے ۔ عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہو چکی ہے، فلسطین میں موجود مزاحمتی تنظیمیں پہلے سے زیادہ مستحکم اور طاقتور ہو چکی ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کے اس طرح کے اقدامات سے نہ تو فلسطین سے متعلق بیداری کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کے عوام تک فلسطین کا پیغام پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ ایسے اقداما ت سے امریکی حکومت کے انسانی حقوق کے دعوے اور آزادی اظہار رائے کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے اور دنیا کے سامنے امریکہ کا دوہرا معیار واضح ہو رہاہے کہ امریکی حکومت ہمیشہ کی طرح ظالم اور جابر نظاموں اور قوتوں کی سرپرستی میں مشغول ہے ۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان