انسانی بحران جرمنی نے خاموشی توڑ دی
غزہ میں روز افزوں انسانی تباہی اور فلسطینی شہریوں کی بڑے پیمانے پر شہادت کے پیش نظر، یورپ کی بعض بڑی طاقتوں نے اپنا مؤقف تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔ جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے ایک اسکول پر بمباری کے بعد کہا "اب شہریوں کی ہلاکت کو ‘حماس کی دہشت گردی’ کے خلاف جنگ کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔”
انہوں نے غیر قانونی صیہونی ریاست کو خبردار کیا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے قریبی اتحادیوں کے صبر کا امتحان نہ لے۔
یورپی یونین میں شدید غور و خوض
رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپی یونین نے غیر قانونی صیہونی ریاست کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کا جامع جائزہ شروع کر دیا ہے۔ نیدرلینڈز، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک اب کھلے عام تل ابیب کی جنگی پالیسیوں پر اعتراض کر رہے ہیں، جبکہ یونین کی صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے صیہونی حملوں کو ’’خوفناک‘‘ قرار دیا ہے۔
اسپین اور آئرلینڈ کی سخت پوزیشن
اسپین نے صیہونی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معطل کرنے اور ہتھیاروں کی برآمدات پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ آئرلینڈ نے فلسطینی عوام کے حق میں کھل کر حمایت کا اظہار کیا ہے۔ فرانس بھی فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
"خاموشی اب ناقابلِ جواز ہے”
بین الاقوامی تجزیہ کار نتھالی ٹوکی کے مطابق:”غزہ پر دوبارہ قبضہ اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے منصوبے نے یورپ کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب چھپنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہا۔”
تقسیم شدہ یورپ، دباؤ بڑھتا جا رہا ہے
اگرچہ مکمل یورپی اتفاقِ رائے ابھی تک قائم نہیں ہو سکا، لیکن بلاک کے اندرونی دباؤ بڑھ رہے ہیں۔ ہنگری جیسے اسرائیل نواز ممالک اور آئرلینڈ جیسے فلسطین نواز ممالک کے درمیان گہری خلیج واضح ہے۔ برطانیہ، فرانس اور کینیڈا پہلے ہی صیہونی ریاست کو خبردار کر چکے ہیں کہ اگر اس نے غزہ پر اپنے حملے بند نہ کیے اور امدادی سامان کی فراہمی کی اجازت نہ دی، تو وہ ٹھوس کارروائیاں کریں گے۔
یورپ کی دوراہے پر کھڑی خارجہ پالیسی
ایک جانب یورپی یونین غیر قانونی صیہونی ریاست کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور جرمنی اس کا دوسرا بڑا اسلحہ فراہم کرنے والا ملک۔ دوسری جانب، غزہ میں بہتے خون اور تباہ شدہ انسانی زندگیوں نے یورپ کو اپنی دیرینہ پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے: کیا یورپ اپنی مذمت کو عملی اقدامات میں بدل سکے گا؟ یا یہ صرف وقتی اخلاقی اضطراب ہے جو وقت کے ساتھ دب جائے گا؟ جواب ابھی سامنے آنا باقی ہے، لیکن غزہ کی گلیوں میں بہتا خون ہر لمحہ اس سوال کو اور زیادہ گہرا کرتا جا رہا ہے۔