(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) ماہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس اور قبلہ اول بیت المقدس سے فلسطینی عوام نے ایک نئی امید کو جنم دیا ہے۔
یہ امید یقینی طور پر مقبوضہ فلسطین میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات سے پیدا ہوئی ہے۔اس امید کو فلسطینیوں نے ”سنفطر فی القدس“ یعنی عنقریب القدس شریف میں افطار کریں گے، کا نام دیا ہے۔ اس عنوان سے فلسطینی عوا م جوق در جوق مقامی سطح پر عوامی شعور بیدار کرنے کی مہم چلا رہے ہیں اور عوام کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ اپنی روز مرہ کی افطار کو قبلہ اول القدس شریف میں انجام دیں۔
یقینی طور پر مقبوضہ فلسطین کی موجودہ صورتحال اسی امید کا پیش خیمہ نظر آ رہی ہے کہ نہ صرف فلسطین کے باشندے بلکہ دنیا بھر سے آزادی فلسطین کا دم بھرنے والے حریت پسندبھی عنقریب القدس شریف میں افطار اور نماز ادا کریں گے۔
حالیہ واقعات جو کہ مقبوضہ فلسطین میں رونما ہو رہے ہیں۔ یہ دو طرح کے واقعات ہیں لیکن ان دونوں اقسام کے واقعات میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کاری ضربیں کھا رہی ہیں۔یہ ضربیں اس قدر درد ناک ہیں کہ صہیونی چیخوں کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔
ایک طرف مظلوم اور نہتے فلسطینی ہیں جو گذشتہ پچھتر سالوں سے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا ظلم اور بربریت برداشت کرتے چلے آئے ہیں۔ ان فلسطینیوں کی نئی نسلوں نے یہ ٹھان رکھی ہے کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے او ر شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو دن کی زندگی سے بہتر ہے۔ نئی نسل اس عزم کے ساتھ میدان میں اتر آئی ہے اور مقبوضہ علاقوں میں غاصب صہیونی افواج کے خلاف ایک نہ رکنے والے مقاومت جاری ہے جس نے غاصب صہیونیوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔
مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں عرین الاسود نامی نوجوانوں کا گروہ مسلسل غاصب اسرائیل پر کاری ضربیں رسید کر رہا ہے۔ اسرائیل ہزار ہا کوشش کے باوجود ان نوجوانوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ان نوجوانوں کے گروہ نے پوری دنیا میں فلسطین سے یہ پیغام بھیج دیا ہے کہ پورے کا پورا فلسطین مزاحمت و مقاومت کا نشان ہے۔ ان نوجوانوں کی مزاحمت نے دنیا کے ان سازشگروں کو بھی پیغام دیا ہے کہ خیانت کاری کا راستہ ترک کر دیں۔جیسا کہ چند عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بناکر اسرائیل کو آکسیجن فراہم کرنے کی کوشش کی ہے ان سب کے لئے فلسطینیوں کا یہی پیغام ہے کہ گرتی ہوئی اسرائیل نامی دیوا ر کو کسی قسم کے تعلقات سے نہیں روکا جا سکے گا۔
مقبوضہ فلسطین کی عوامی اور مقبول مزاحمت نے فلسطین کی آزادی ک جدوجہد کے لئے بھی نئی امیدیں پید اکی ہیں اور فلسطینیوں کو باہمی اتحاد کی لڑی میں بھی پرو دیا ہے۔ آج غزہ کی پٹی ہو یا مغربی کنارہ ہو ہر طرف سے ان مزاحمت کاروں کے لئے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔پوری دنیا سے حریت پسندوں کی نگاہیں ان نوجوانوں کی روزانہ کی کاروائیوں پر مرکوز ہیں۔غاصب اسرائیل نفسیاتی دباؤ کے ساتھ ساتھ جنگی میدان میں بھی دباؤ کا شکار نظر آتا ہے۔آج پورے فلسطین سے یہی امید نظر آ رہی ہے کہ مغربی کنارہ القدس کی ڈھال ہے۔القدس کا دفاع مغربی کنارے سے شروع ہو چکا ہے جو اسرائیل اور اس کے آقاؤں کی ایک بیت بڑی شکست ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل مسلسل سیاسی طور پر اپنا استحکام کھو چکی ہے۔ غاصب صہیونی آباد کار جو پہلے ہی دنیا کے مختلف ممالک سے لا کر یہاں پر آباد کئے گئے تھے آ ج غاصب صہیونی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بن چکے ہیں۔ موجودہ حالات میں غاصب صہیونی آباد کاروں کا براہ راست غاصب صہیونی حکومت سے مقابلہ جاری ہے۔ پر تشدد مظاہرے اور صہیونیوں کے ایک دوسروں پر حملوں اور املاک کو جلاؤ گھراؤ کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اگر چہ مغربی ذرائع ابلاغ کی مکمل کوشش ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کے اندرونی غیر مستحکم حالات کو نشر نہ کیا جائے لیکن سوشل میڈیا پرطوفان بپا ہے۔پوری دنیا میں صہیونیوں کے پر تشدد احتجاج اور مطاہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔
بین الاقوامی حالات اور سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ غاصب صہیونی ریاست کے اندرونی حالات اس قدر بد ترین صورت اختیار کر جائیں گے ایسا کسی نے نہیں سوچا تھا۔کیونکہ صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کرتے وقت دنیا بھر کے صہیونیوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اسرائیل نامی صہیونی ریاست میں صہیونیوں کو امن و امان میسر ہو گا۔ ایسے تمام دعوے ہر گزرتے دن کے ساتھ ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ ماضی میں متعدد مرتبہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو حزب اللہ اور حماس سمیت جہاد اسلامی کے مقابلہ میں بڑے پیمانہ پر نقصانات کا سامنا رہا ہے لیکن اس مرتبہ صورتحال اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ ایک طرف فلسطینی نوجوانوں کی نہ رکنے والے مزاحمت کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہے تو دوسری طرف غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی اندرونی صورتحال مسلسل ناکامی کی طرف گامزن ہے۔ ایسے حالات میں یہ کہنا مشکل ہے کہ غاصب ریاست زیادہ عرصہ تک اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایسے ہی حالات و مشاہدت کے بعد فلسطینی عوام کی طرف سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے ماہ رمضان المبارک میں ایک امید جسے ”سنفطر فی القدس“ کا عنوان دیا گیا ہے، فلسطینی مزاحمت کی کامیابیوں اور تقویت کی نوید بن چکی ہے۔ یہ امید فلسطین سے نکل کر پاکستان، افغانستان، عراق، ایران، ملائیشیا، انڈونیشاء، ترکی، اردن،مصر سمیت افریقی ممالک میں پہنچ چکی ہے۔مسلم دنیا کی اقوام ہر طرف اسی امید کا پرچار کر رہی ہیں اور پر امید ہے کہ عنقریب القدس شریف میں افطار کاموقع ملنے والا ہے۔یقینی طور پر اللہ کا یہی وعدہ ہے کہ حق غالب ہو گا اور عنقریب دنیا بھر سے حریت پسند نہ صرف القدس میں افطار کریں گے بلکہ القدس شریف میں نماز باجماعت بھی ادا کریں گے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان