(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ میں غیر قانونی صیہونی ریاست کی جانب سے جاری جنگ کے خلاف اب نہ صرف عالمی سطح پر مذمت ہو رہی ہے بلکہ خود صیہونی عوام، فوجی اہلکار اور یرغمالیوں کے اہل خانہ بھی حکومتی پالیسیوں سے شدید نالاں نظر آ رہے ہیں۔ جنگ کے 550 دن گزرنے کے باوجود کوئی واضح پیش رفت نہ ہونے پر غزہ میں قید اسرائیلیوں کے اہل خانہ نے وزیرِ امورِ اسٹریٹیجک رون دیرمر کو مذاکراتی عمل میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی نشریاتی ادارے "سی این این” نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کے وزیر رون دیرمر کا ثالثی عمل میں کردار مذاکراتی عمل میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مصر اور قطر جیسے اہم ثالث ممالک سے دیرمر کا رابطہ نہایت محدود ہو گیا ہے، جبکہ اس سے قبل موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیع اور شاباک کے سربراہ رونین بار مذاکرات کو آگے بڑھا رہے تھے۔
سی این این کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے یرغمالیوں کے اہل خانہ نے ایک بیان میں کہا:
"ہم نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ رون دیرمر کی تقرری سے مذاکراتی عمل متاثر ہوگا۔ اب یہ بات عالمی سطح پر بھی تسلیم کی جا رہی ہے۔ اگر وہ تمام 59 یرغمالیوں کی رہائی ممکن نہیں بنا سکتے تو انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے۔”
بیان میں مزید کہا گیا:
"وقت ختم ہو چکا ہے، اگر آپ قیدیوں کو رہا نہیں کر سکتے اور جنگ کا خاتمہ نہیں کر سکتے تو بہتر ہے آپ کنارہ کش ہو جائیں۔ قیدیوں کی آزادی ہی ہماری آزادی ہے۔”
یہ مطالبہ ایسے وقت میں شدت اختیار کر گیا ہے جب غیر قانونی صیہونی ریاست میں فوجی اداروں اور سابق اعلیٰ افسران کی جانب سے جنگ کے خلاف عوامی بیانات، دستخطی مہمات اور تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فوجی فضائیہ کے ہزار سے زائد ریزرو اہلکاروں، سینکڑوں نیوی اور آرمرڈ کور کے فوجیوں، درجنوں ریزرو ڈاکٹروں، اور بدنام زمانہ انٹیلیجنس یونٹ 8200 کے سینکڑوں اہلکاروں نے بھی جنگ کے خلاف عرائض پر دستخط کیے ہیں۔
ان سب کا مشترکہ مؤقف یہ ہے کہ:
"یہ جنگ ملکی سلامتی کے بجائے نیتن یاہو کی سیاسی بقا کے لیے لڑی جا رہی ہے، اور اب مزید جانوں کا ضیاع ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔”
ان عرائض کی حمایت میں یرغمالیوں کے اہل خانہ بھی میدان میں آ گئے ہیں، جنہوں نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ انسانی جانوں کے تحفظ کے بجائے سیاسی مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔
ادھر، غیر قانونی صیہونی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے وزراء نے ان فوجیوں کو "غدار”، "باغی” اور "جنگ کے دوران دشمن کو فائدہ پہنچانے والے عناصر” قرار دیتے ہوئے ان کی برطرفی کی دھمکیاں دی ہیں۔
معروف صیہونی اخبار "معاريف” کے عسکری تجزیہ کار آوی اشکنازی نے اپنے تازہ کالم میں لکھا:
"غزہ میں جاری کارروائی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو رہی ہے، اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی شدید تنقید جنم لے رہی ہے۔”
اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ اندرونی بغاوت غیر قانونی صیہونی ریاست کی جنگی پالیسیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکے گی، یا نیتن یاہو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ہر تنقید کو کچلنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔