(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نیوز نے پانچ باخبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ غزہ کے تقریباً دس لاکھ فلسطینیوں کو مستقل طور پر لیبیا منتقل کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ تاحال زیرِ غور ہے اور اس پر ٹرمپ انتظامیہ نے لیبیائی قیادت کے ساتھ بات چیت بھی کی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس منصوبے کے بدلے امریکا ممکنہ طور پر لیبیا کے ان اربوں ڈالرز کو جاری کر سکتا تھا، جو گزشتہ دس برس سے امریکی تحویل میں منجمد ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کس لیبیائی فریق کے ساتھ اس منصوبے پر گفتگو کر رہی تھی۔
این بی سی کے مطابق تاحال کسی حتمی معاہدے تک نہیں پہنچا جا سکا اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو اس بارے میں مطلع کر دیا گیا تھا۔ منصوبے کی تفصیلات، وقت کا تعین اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار اب بھی غیر واضح ہے، اور امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اس منصوبے کو کئی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق: "یہ ایک انتہائی مہنگا منصوبہ ہو گا، اور یہ بھی واضح نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ اسے مالی طور پر کیسے ممکن بنائے گی۔”
یاد رہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کی جبری منتقلی کی ٹرمپ کی یہ تجویز عرب دنیا میں شدید مخالفت کا سامنا کر چکی ہے۔ اس کے ردعمل میں عرب ممالک نے غزہ کی ازسرِ نو تعمیر کی ایک متفقہ منصوبہ بندی کی، تاکہ فلسطینی اپنی زمین پر ہی رہیں۔
جنوری میں ٹرمپ نے فلسطینیوں کی غزہ سے نقل مکانی کی تجویز دی تھی، جو مصر اور اردن کی جانب سے مکمل طور پر مسترد کر دی گئی۔ ان دونوں ممالک کو ابتدائی طور پر اس منصوبے کے لیے تجویز کیا گیا تھا، حالانکہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل ان فلسطینیوں کا محاصرہ، بمباری اور بھوک کا سبب بنی ہوئی ہے۔ بعد ازاں ٹرمپ نے فلسطینیوں کو دیگر ممالک منتقل کرنے کی تجویز بھی دی۔
ٹرمپ نے بارہا "غزہ کو مشرق وسطیٰ کی ریویرا” میں تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، گویا یہ تعمیرِ نو کا منصوبہ ہے، حالانکہ وہ غزہ میں روزانہ ہونے والی شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کو ایسی جگہ منتقل کر دینا بہتر ہے "جہاں وہ خوشی سے جی سکیں اور اُن پر گولیاں نہ چلیں”۔ یہ تجویز ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر دہرائی۔
این بی سی کے مطابق امریکی حکام اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ غزہ کے فلسطینیوں کو لیبیا تک فضائی، زمینی یا بحری راستے سے کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زیر غور منصوبے میں فلسطینیوں کو مالی ترغیبات، جیسے مفت رہائش اور تنخواہ کی پیشکش بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی شام کو بھی فلسطینیوں کی منتقلی کے لیے ممکنہ مقام کے طور پر زیرِ غور لایا جا رہا ہے۔
ادھر حماس کے رہنما باسم نعیم نے این بی سی کو بتایا کہ "ہمیں فلسطینیوں کو لیبیا منتقل کرنے سے متعلق کسی بھی قسم کی بات چیت کا علم نہیں ہے۔ فلسطینی اپنی سرزمین سے جڑے ہوئے ہیں، وہ اپنی زمین، اپنے وطن، اپنے خاندان اور بچوں کے مستقبل کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ غزہ کے عوام ہی وہ واحد فریق ہیں جو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔”