(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جاری جارحیت نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور اسرائیلی حکومت کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔ عبرانی اخبار اسرائیل ہیوم نے اطلاع دی ہے کہ ٹرمپ کے قریبی حلقوں میں یہ گفتگو جاری ہے کہ نیتن یاہو حکومت پر دباؤ ڈال کر جنگ کے خاتمے کے لیے حتمی تاریخ طے کی جائے۔
رپورٹ کے مطابق، اگرچہ ٹرمپ نے اب تک اسرائیل پر کھلے عام تنقید نہیں کی، تاہم وائٹ ہاؤس کے ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ واشنگٹن اب لہجہ سخت کرنے کے لیے تیار ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کو امریکی دارالحکومت میں مدعو کرنے کا مقصد نیتن یاہو سے ناراضی کا پیغام دینا ہے۔ بینیٹ کو آئندہ انتخابات میں نیتن یاہو کا ممکنہ متبادل سمجھا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ اس بات سے بیزار ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل غزہ میں حماس کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے، جبکہ انسانی امداد کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے انسانی امداد کے حوالے سے کئی مواقع پر جھوٹ بولا، اور اب وہ خود اپنے اتحادیوں میں تنہا ہوتی جا رہی ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت جنگ کو اخلاقی اور قانونی جواز فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اسرائیلی عوام کا بھی حکومت پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے، جبکہ غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ بھی خود کو نظر انداز شدہ اور پریشان محسوس کر رہے ہیں۔
اس ساری صورتحال کے باعث امریکہ سمیت کینیڈا، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک بھی غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی موجودہ پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر تل ابیب نے جنگ بند کرنے اور انسانی امداد کی فراہمی میں نرمی نہ کی تو مستقبل قریب میں واشنگٹن اپنی سفارتی حکمت عملی میں نمایاں تبدیلی کر سکتا ہے۔