پاکستان میں فلسطین پر قابض غیر قانونی صہیونی ریاست کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے حوالے سے گزشتہ کچھ برسوں میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ ملک میں نام نہاد تعلیم یافتہ افراد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بے تحاشا جواز فراہم کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے کیونکہ بھارت اسرائیل کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اپنے بنجر صحرا کو سرسبز و شاداب بنا رہا ہے اور ہم آج تک اپنے صحرائے تھر میں پانی کی فراہمی کا کوئی راستہ نہیں نکال سکے۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے آج کل نام نہاد دانشور اور مختلف اخبارات اور ٹی وی میں کرائے پر دستیاب صحافی اس کے حق میں اول فول دلائل دے رہے ہیں کہ صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ ملکی عظیم تر مفاد شامل ہے۔
صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، ان کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے لیکن اس نسل پرست ریاست کو کیوں تسلیم نہیں کرنا چاہیے اس حوالے سے میرے پاس ایک طویل فہرست ہے۔ آج میں اس نامعقول بحث پر علمی اور تاریخی اعتبار سے تفصیلات پیش کررہا ہوں۔ مضمون کو طویل ہونے سے بچانے کےلیے یہاں وہ مختلف فوائد مختصر طور پر پیش کروں گا، جس کے بعد صرف کرائے کے دانشور ہی اس کے حق میں دلائل لانے کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے وہ دلائل پڑھیے جو اسرائیل کو تسلیم کرانے کے حامی بار بار دہراتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستان پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے، اور جنوبی ایشیائی ممالک کو آئندہ 10 سے 15 سال میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا، جس کے بعد غذا کا حصول بھی انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ اسرائیل پانی کی ری سائیکلنگ میں عالمی رہنما ہے۔ یہ اپنے تقریباً 90 فیصد پانی کو ری سائیکل کرتا ہے، جو عالمی سطح پر کسی بھی دوسرے ملک سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ اسرائیل کے تعاون سے پاکستان اپنی پانی کی کمی پر قابو پانے اور اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے تل ابیب کی جدید آبی ٹیکنالوجی کو بھی سیکھ سکتا ہے اور اپنا سکتا ہے۔
پاکستان کو ملٹری ہارڈویئر فروخت کرنے میں امریکا کی ہچکچاہٹ اور چینی دفاعی سازوسامان کے اوسط معیار کی وجہ سے، پاکستان جنگی سازو سامان کے حصول کےلیے نئے دفاعی شراکت داروں کی تلاش میں ہے تاکہ بھارت کے ساتھ روایتی برابری برقرار رکھی جاسکے۔ پاکستان اسرائیل کے جدید ترین جنگی ساز و سامان کا بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، جیسے کہ حملہ آور ایچ ایکس 50 ہیلی کاپٹر، جن کی پاکستان کو بلوچستان اور افغانستان سے متصل شمال مغربی علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کےلیے اشد ضرورت ہے۔ اسرائیل جنگی سازو سامان کے حوالے سے پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔
اسرائل دنیا کے بہترین اسٹارٹ اپ سیکٹرز میں شامل ہے اور اس کے پاس پاکستان کی ابھرتی ہوئی اور امید افزا اسٹارٹ اپ انڈسٹری کو پیش کرنے کےلیے بہت کچھ ہے۔ یہ سب اسرائیل سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کو اکثر بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرلیتا ہے تو ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں بھارت اکیلا ہوجائے گا۔ (ممکن ہے کہ آپ بھی یہ والا نکتہ پڑھ کر میری طرح بے تحاشا ہنسے ہوں گے)۔
ایک خاتون ڈاکٹر کی تحریر میری نظر سے گزری جس میں انھوں نے لکھا ہے؛
’’یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں۔ یاسر عرفات کے کئی حریت پسند ساتھی عیسائی تھے اور ابھی بھی وہ مشترکہ جدوجہد میں شامل ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ نہیں کیا بلکہ فلسطینیوں سے زمین خرید کر وہاں اپنے قدم جمائے ہیں۔ اس طرح تو غلطی فلسطینیوں کی بھی ہے کہ انہوں نے خود ایسے مواقع پیدا کیے۔ بنی اسرائیل اور مسلمانوں میں مذہبی، تاریخی اور عقیدت کے حوالے سے بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ قرآن کریم میں جس قوم کا سب سے زیادہ تذکرہ آیا، وہ بنی اسرائیل ہے۔ یہودیت اسلام سے پہلے نازل کیا گیا الہامی مذہب ہے، جس میں سب سے زیادہ انبیاء آئے اور وہ سب کے سب بنی اسرائیل میں سے تھے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ کے قریب سب سے زیادہ انبیاء مدفون ہیں اور دیکھا جائے تو یہودیوں اور مسلمانوں کے جدِ امجد ایک ہیں۔ پانچ وقت کی نماز مسلمانوں پر فرض کی گئی اور کوئی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود نہ بھیجا جائے۔ مگر ہم پاکستانیوں نے معلوم نہیں کیوں اسرائیل سے بلاوجہ کا بیر رکھا ہوا ہے جبکہ وہ ہمارے کسی بھی طرح مخالف نہیں۔ اسی طرح دونوں مذاہب میں ذبیحہ اور ’وحدانیت‘ کے عقائد بھی مشترک ہیں۔ اتنے سارے اشتراکات کے ساتھ مجھے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہر وجہ نظر آتی ہے مگر تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز میرے پاس نہیں۔‘‘
فاضل مصنفہ نے اتنی طویل تحریر لکھ ڈالی لیکن مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ جو نکات انھوں نے اپنی تحریر میں لکھے، ان کو چاہیے تھا کہ وہ لکھنے سے پہلے اس بارے میں تھوڑی تحقیق بھی کرلیتیں۔
ایک معرف ادیب کا جملہ مجھے یاد آیا کہ ’’وہ لوگ بھی لکھ رہے ہیں جن کو پڑھنا چاہیے‘‘۔ ایسے بہت سارے کرائے کے دانشور میری نگاہ سے گزرے جو اپنی فکری بانجھ پن کا اشتہار دینے سے گریز نہیں کرتے، تاہم اگر سب کو شامل کروں گا تو بات کا اثر ختم اور تحریر بہت طویل ہوجائے گی، سو میں اپنے موضوع پر آتا ہوں۔
یہاں میں اسرائیل کے حوالے سے مذہبی، اخلاقی اور قانونی جواز پیش نہیں کروں گا کیونکہ جن لوگوں کو اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے سے تکلیف ہے، ان کا نہ مذہب سے کوئی خاص تعلق ہے اور نہ اخلاقیات سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایک قوم جو دو ہزار سال قبل فلسطین سے نکلی اور جب وہ یہاں سے نکالی گئی تو حاکم نہ تھی بلکہ چار سو برس سے رومیوں کی غلام و محکوم تھی اور آج وہ ظلم و جبر، عیاری اور دھوکے سے ایک آزاد و خودمختار ملک پر یہ کہہ کر قابض ہوگئی کہ یہ ہمارا ملک ہے، ہم یہاں صدیوں پہلے آباد تھے۔ اگر اس نظریے کو دیکھا جائے تو حضرت علامہ محمد اقبال کا ایک شعر اس پر صادق آتا ہے۔
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟
اس نظریے کے اعتبار سے اہل عرب کو ہسپانیہ پر چڑھ دوڑنا چاہیے کیونکہ یہودی فلسطین میں محکوم تھے حکمران نہیں، جبکہ عرب کئی صدیوں تک ہسپانیہ پر حکمران رہے۔ خیر یہاں میں مکمل طور پر مذہب اور اخلاقیات سے ہٹ کر معاشی، قانونی، اقتصادی حقائق پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
میرا پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ یہودی ایک نسل پرست قوم ہے جو دو گروہوں فلاشا اور اشکنازی میں تقسیم ہیں۔ فلاشا وہ یہودی ہیں جو ایتھوپیا، سوڈان اور دیگر افریقی ممالک سے لاکر اسرائیل میں بسائے گئے۔ ان کو یہاں دوسرے درجے کے شہری کے حقوق حاصل ہیں جبکہ اشکنازی وہ یہودی ہیں جو یا تو اسرائیل میں پیدا ہوئے یا عرب خطے کے کسی ملک میں ان کی پیدائش ہوئی۔ یہ نسلی اعتبار سے گوری چمڑی کے حامل یہودی ہیں۔ اشکنازی یہودی اس قدر نسل پرست ہوتے ہیں کہ اگر کسی اشکنازی کو جان بچانے کےلیے خون کی ضرورت ہو اور کوئی دوسرا ہم نسل یہودی خون دینے کو میسر نہ ہو تو یہ مرنا پسند کرتے ہیں، بہ نسبت اس کے کہ انھیں فلاشا کا خون دیا جائے۔
یہ میرا خیالی خاکہ نہیں، اس کی تصدیق کےلیے 2019 میں اسرائیل میں ہونے والے فسادات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، جس میں اشکنازی یہودی پولیس اہلکار کے ہاتھوں فلاشا یہودی کے قتل پر فسادات شروع ہوئے اور درجنوں شہری پرتشدد جھڑپوں میں مارے گئے۔ تل ابیب سمیت درجنوں شہروں میں پٹرول پمپس اور گاڑیوں کو جلا دیا گیا، جس کے بعد کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔
ایسی نسل پرست قوم سے مفادات کی بات کوئی احمق ہی کرسکتا ہے یا جس کو محض کرائے پر حاصل کیا گیا ہو اور اس کی اپنی کوئی تعلیم و تربیت اور تحقیق نہ ہو۔
کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرکے ان کی ٹیکنالوجی کے استعمال سے بنجر زمین کو سرسبز بنایا جاسکتا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حامی زیادہ تر افراد یہی ایک مضبوط دلیل دیتے ہیں۔ یہاں آگاہ کرتا چلوں کہ اسرائیلی اسٹارٹ اپ ASTERRA سیٹلائٹ پر مبنی مصنوعی اپارچر ریڈار ٹیکنالوجی ہے، جو زمین کے نیچے جمع ہونے والی نمی تک بصری اور مقداری رسائی فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے پھلوں اور سبزیوں کے بیجوں میں جینیاتی تبدیلیاں کرکے ایسے پودے تیار کیے ہیں جو ایسی زمین پر بھی زندہ رہ سکتے ہیں جہاں پانی 12 سو سے 2000 فٹ تک گہرائی میں ہو اور یہ پودے چالیس فیصد نمک والے پانی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے سلیکون کے استعمال سے بھی جنیاتی سبزیاں اور پھل تیار کیے ہیں۔
یہاں آپ کو بتاؤں کہ یہ ٹیکنالوجی ممکن ہے کہ آپ کےلیے حیران کن ہو لیکن یہ ٹیکنالوجی وسائل نہ ہونے کے باوجود کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات عمران نے 2003 میں متعارف کرائی تھی۔ حیات عمران نے حکومت، این جی اوز اور مخیر حضرات سے درخواستیں کیں کہ ابھی میرا تجربہ ابتدائی مراحل میں ہے، اس قومی مفاد میں میری مدد کی جائے تو میں بہت کچھ اس ملک کو دے سکتا ہوں۔ لیکن ہوا کیا؟ حکومتی سطح پر تو کیا، کسی نجی ادارے نے بھی اس زرخیز دماغ کی قدر نہیں کی اور یوں 2010 میں ملک کا یہ ذہین دماع در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد امریکا میں اسرائیل کی ایک عالمی شہرت یافتہ ملٹی نیشنل ایرو اسپیس اور دفاعی ٹیکنالوجی کمپنی Northrop Grumman Corporation کی دعوت پر پاکستان کو چھوڑ کر ہمیشہ کےلیے امریکا چلا گیا۔ نارتھروپ گرومن کارپوریشن ایک امریکی ملٹی نیشنل ایرو اسپیس اور دفاعی ٹیکنالوجی کمپنی ہے، جس میں تقریبا 90,000 سے زائد ملازمین ہیں اور 30 بلین ڈالر سے زائد سالانہ آمدنی کے ساتھ، یہ دنیا کے سب سے بڑے ہتھیاروں کے مینوفیکچررز اور فوجی ٹیکنالوجی فراہم کرنے والوں میں سے ایک ہے۔
اگر پاکستان میں موجود نکمے اور ذہنی غلام اسرائیل کو تسلیم کرنے کےلیے صرف اس لیے زور لگا رہے ہیں کہ اسرائیل سے ہمیں ٹیکنالوجی مل جائے گی تو یقین کیجیے کہ وہ لوگ احمق ہی نہیں بلکہ منافقت کے بدترین درجے پر ہیں۔ کیونکہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں بابر اقبال، اشعر جاوید، شایان اختر، ایان قریشی، فریحہ رئیس، محمد حمزہ شہزاد، یہ تمام لوگ کون ہیں اور اب کہاں ہیں؟ آپ میں سے اکثریت تو ان ناموں سے بھی آگاہ نہیں ہوگی تو یہ کس کو معلوم ہوگا کہ اب یہ لوگ کہاں ہیں اور انھوں نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں کیا خدمات انجام دی ہیں۔
بابر اقبال ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والا طالب علم تھا۔ بابر اقبال نے ڈیجیٹل فرانزک سائنس کے شعبے میں ریسرچ پیپر تیار کرکے تیسری مرتبہ عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ معروف ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے بابر اقبال کو IEEE انٹرنیشنل کانفرنس میں خصوصی طور پر مدعو کیا اور اس کی آئی پیڈ، آئی فون اور آئی پوڈ سے متعلق ریسرچ کو اپنی کمپنی کےلیے غیرمعمولی ترقی قرار دیا تھا۔
بہاول پور کے اشعر جاوید نے مائیکرو سافٹ سیکیورٹی ریسرچ میں دنیا کے 150 سے زائد ممالک کے آئی ٹی ماہرین کو شکست دے کر پہلی پوزیشن حاصل کی تھی لیکن ملک میں کوئی مستقبل نہ ہونے کے باعث اب جرمنی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں سیکیورٹی ریسرچر کے طور پر کام کررہے ہیں۔
چند سال قبل یورپین بزنس ایڈمنسٹریشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 120 ترقی یافتہ ممالک کے درمیان پاکستان دنیا کے ذہین ترین ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر قرار دیا گیا۔
پاکستان کو کسی امریکا، اسرائیل اور چین یا کسی بھی ملک کی ایسی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ان کے نظریات، اخلاقیات اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منتظر رہیں۔ ضرورت صرف ایمانداری کی ہے، ورنہ اسرائیل تو کیا فرشتے بھی ہماری مدد کو اتر آئیں تو بھی ہم ناکامیوں کی پستیوں میں ہی رہیں گے۔
اقربا پروری، معاشی بے یقینی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کے پڑھے لکھے ذہین شہری ملک سے کسی بھی طرح نکلنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ حالیہ سروے کے مطابق 2022 میں 7 لاکھ 50 ہزار سے زائد تعلیم یافتہ شہریوں (جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئرز، ڈاکٹر اور آئی ٹی ماہرین شامل ہیں) نے پاکستان کو چھوڑ کر بیرون ممالک سکونت اختیار کی۔ پاکستان کے شہریوں نے امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں ہی جانے کو ترجیح نہیں دی بلکہ وزارت خارجہ کی دستاویزات کے مطابق پاکستانیوں کی بڑی تعداد خلیجی ممالک سمیت افریقی ممالک جانے سے بھی گریز نہیں کررہی۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد کوئی خاص کامیابی نہیں ملنی، بلکہ پاکستان کو اس وقت کامیابیاں حاصل ہوں گی جب ملک سے اقربا پروری کا خاتمہ ہوگا۔ ہر ادارہ اپنے آئینی اور قانونی دائرے میں رہنے کے ساتھ ساتھ قانون کی مکمل پاسداری کرے اور تمام اداروں کے سربراہان ایمانداری سے میرٹ پر تقرریاں کریں۔ اس کے بغیر اسرائیل تو کیا، پوری دنیا بھی پاکستان کو کامیاب کرنے میں لگ جائے تو نہیں ہوسکتا کیونکہ آفاقی قوانی کسی کےلیے نہیں بدلتے۔ کامیابیاں صرف اس کےلیے ہیں جو کوشش کرے گا، اب چاہے وہ سادھو نارائن ہو، مائیکل پیٹر ہو یا عبدالرحمان ہو۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
تحریر : حسیب اصغر