(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) پاکستان کو مملکت خداداد اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مملکت مسلمانوں کی انتھک جدوجہد اور بے مثال قربانیوں سے حاصل کی گئی۔اس کے حصول کے لئے ہزاروں لوگوں نے نہ صرف مال کی قربانیاں پیش کیں بلکہ قیمتی ترین چیز اپنی جان اور ناموس کی قربانیاں پیش کیں تا کہ ایک آزاد وطن میں آزاد انسانوں کی طرح زندگی بسر کی جائے۔
قربانیوں کی داستان طویل ہے۔قربانی دینے والے اگر آج زندہ ہوتے تو یقینا ہمارے سوال پر ان کا جواب یہی ہوتا کہ انہوں نے بعد میں آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل اور زندگی کی خاطر ان تمام قربانیوں کو خوشی سے قبول کیا۔یعنی ہمارے آباؤ اجداد مملکت کے قیام کے لئے یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ ان کی یہ قربانیاں فقط اس مخصوص وقت کی خاطر نہیں ہیں بلکہ قیامت تک قائم رہنے والی مملکت خداداد پاکستان میں پید اہونے والی نسل نو کے بہترین اور با عزت مستقبل کی خاطر ہیں۔تا کہ آنے والی نسلیں ہمیشہ سر اٹھا کر سینہ تان کر دنیا کے سامنے کھڑی ہو سکیں۔
وقت گزرتے ساتھ ساتھ وطن عزیز کو ایسے نا عاقبت اندیشوں کی نظر کھانے لگی کہ جن کے آباؤ اجداد ماضی میں انگریز کے غلام تھے۔انگریز کی غلامی کو ہی وفاداری سمجھتے تھے۔ ان لوگوں کے آباؤ اجداد نے کل بھی انگریز کے ہاتھوں پر حلف وفاداری لے رکھا تھا اور اس وفاداری کے حلف کے عوض ان کمی کمین لوگوں کو اس وقت کا جاگیر دار اور وڈیرہ بنایا گیا تھا۔انگریز سامراج یہ چاہتا تھا کہ ہندو اور مسلمانوں معاشروں میں انہی غلام فکر لوگوں کا اثر ونفوذ قائم رہے تا کہ انگریز سامراج کے مفادات کا تحفظ یقینی ہو سکے۔
قیام پاکستان کے بعد جہاں ایک طرف قربانیوں کی داستان ہے تو دوسری طرف خیانت کاروں کی تاریک داستان بھی موجود ہے۔ان خیانت کاروں نے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بنانا شروع کر دیا تھا اور آج انہی انگریز سامراج کے غلام خاندانوں کی نسلیں پاکستان کو غلامی کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
آج پاکستان کی آزادی کومتعدد چیلنجز درپیش ہیں۔ان سب میں سے ایک چیلنج پاکستان میں انگریز سامراج کی غلامی کرنے والے چند خاندانوں کی اولادیں ہیں جو آج براہ راست یا بالواسطہ کسی نہ کسی طرح اپنے آباؤ اجداد کی غلامی کی سنت کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس کوشش کے لئے انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا ہے۔
انگریز سامراج کی غلامی کرنے والے خاندانوں کی اولادوں میں ایسے عناصر پیش پیش ہیں جو پاکستان میں اسرائیل کے لئے سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔یہ وہ عناصر ہیں جو کہتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ غلط تھی، ان عناصر کے مطابق مفکر اعظم حکیم امت علامہ اقبال کی فکر اور فلسفہ بھی درست نہ تھا۔ بلکہ چند امریکی ڈالروں کے کاغذی ٹکڑوں کے عوج اب یہ یہاں تک کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کا قیام ہی غلط فیصلہ تھا یا یہ کہ قائد اعظم پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
یہی وہ عناصر ہیں کہ جو پاکستان میں نظریہ پاکستان کے مخالفین ہیں۔ لبرل ازم اور نام نہاد جمہوری کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر پاکستان کے مقابلہ میں غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو ترجیح دیتے ہیں۔پاکستان میں اسرائیل کے لئے کام کرتے ہیں۔تا کہ پاکستان کو کسی نہ کسی طرح کمزور کر دیا جائے۔یہی وہ عناصر ہیں جو پاکستان کی افواج کے خلاف مسلسل پراپیگنڈا کرکے اسرائیل کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے راستہ ہموار کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
انگریز سامراج کی غلامی کا طوق گردنوں میں ڈال کر رہنے والے ان چند خاندانوں کی اولادوں میں چیدی چیدہ لوگوں میں نام نہاد صحافی ہیں کہ جن کو پہلے ہی مختلف ذرائع ابلاغ کے اداروں نے غیر پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی وجہ سے نکالا جا چکا ہے۔ان عناصر میں احمد قریشی، سبوخ سید، معید پیرزادہ سمیت دیگر نام سرفہرست ہیں۔
مال و دولت جمع کرنے کی لالچ اور حوس نے ان ناعاقبت اندیشوں کو اندھا کر دیا ہے۔یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ غلامی اور وطن فروشی ان کے خون میں شامل رہی ہے۔کیونکہ انہی کے آباؤ اجداد ہی تھے کہ جو انگریز سامراج کی غلامی اور وفادری میں اپنے ہی ہم وطنوں پر ظلم و ستم ڈھاتے تھے۔انگریز سامراج کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ناموس تک کا سودا کرتے تھے۔شاید یہ ناموس فروشی اور وطن فروشی ان ملک دشمن عناصر کے خون میں نسل در نسل شامل ہے۔
مذکورہ بالا دھتکارے ہوئے صحافی اپنی عیش پسند زندگی کی خاطر امریکی ڈالر کے کاغذی ٹکڑوں پر رال ٹپکاتے ہوئے پاکستان میں اسرائیل کے لئے لابنگ کرنے میں سرگرم ہیں تا کہ اس کام کے عوض ان کو مال و دولت اور انگریز سامراج سمیت صہیونیوں کی وفادری کا سرٹیفکیٹ حاصل ہو جائے۔
یہ غلام ذہنیت کے صحافی وطن فروشی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کو یہ تمیز باقی نہیں کہ اپنی ماں کا سودا کر رہے ہیں۔اپنی ناموس فروخت کر رہے ہی۔ پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بس ان کے نزدیک دنیا کی دولت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔مذکورہ بالا صحافی طبقہ نہ صرف صحافت پر سیاہ کلنک ہے بلکہ معاشرے میں ایک بد نما نشان بن چکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جب پاکستان میں مذکورہ بالا صحافیوں کی جانب سے کہ جن میں سے زیادہ تر پہلے ہی پاکستان دشمن قوتوں کی گود میں پناہ لئے ہوئے ہیں او ر پاکستان میں موجود ہی نہیں ہیں، ان کی جانب سے پاکستان میں اسرائیل کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پاکستان کے عوام با آسانی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ ان نام نہاد صحافیوں کا اصل مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے اور اپنے بینک اکاؤنٹس کو مضبوط کرنا ہے۔یہ حقیقی طور پر ملک دشمن عناصر ہیں۔ان کے آباؤ اجداد نے ماضی میں وطن فروشی کی اور یہ نسل آج وطن فروشی میں مصروف عمل ہے۔
پاکستان کے عوام کو یہ امتیاز حاصل رہا ہے کہ ہمیشہ سے اپنے بانیان پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے افکار اور نظریات کی محافظ رہی ہے۔آج بھی پاکستان میں بچہ بچہ ان نام نہاد صحافیوں کے نظریات اور ملک دشمن ترکیب پر ان کو ایک گالی سمجھتا ہے۔یہ صحافت کے لبادے میں موجود چند لالی بھیڑیں کسی طرح سے بھی پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں۔کیونکہ یہ کالی بھیڑیں پاکستان سے باہر ہیں اور امریکہ و دیگر ممالک کی قومیت کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہیں۔ان کا فقط ایک ہی ایجنڈا ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کے مفاد کی خاطر کمزور کیا جائے اور اسرائیل کے مفادات کو طاقتور کیا جائے۔یہ وطن فروش اور ناموس فروش ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر صابرابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان