(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اللہ تبارک تعالٰی سے مدد مانگنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے اورقرآن کریم نے واضح طورپر صبر اور نماز کو مدد مانگنے کا طریقہ بتایا ہے تاہم اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق عمل کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ موجودہ فلسطین اسرائیل جنگ بلا شبہ تقاضہ کرتا ہے کہ تمام مسلمان اس میں اپنا کردار ادا کریں۔
گذشتہ دو ہفتوں سے فلسطین کے مسلمانوں کو انتہائی دردناک صورتحال کا سامنا ہے جس کا درد یقینا ہر مسلمان محسوس کر رہا ہے اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتا ہے اور اگر موقع ملتا ہے تو اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اس صورتحال میں ہماری ذمہ داری سب سے اہم اوروہ داشمندی سے قوم کی رہنمائی ہے۔ اس فورم میں ٓللہ کا کرم ہے کہ کافی دانشور موجود ہیں جودشمن کی چالوں کو سمجھتے ہیں اوراس میدان میں دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ ہمارے سارے اسکلرز اپنے اپنے انداز میں فلسطین کے حق میں اپنا حصہ ڈالیں۔
میرا خیال ہے کہ اسرائیل فلسطین جنگ اب ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جس میں قلم کا جہاد فیصلہ کن کردار ادا کررہا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں اس جنگ کو اسلاموفوبیا سےسرشارہوکر لڑ رہی ہیں۔ میدان جنگ سازشی نظریئے کے تحت گرمایا جا رہا ہے جس میں جذبات کو ابھار کر رائے عامہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ ہمیں اس سازش کو بے نقاب کرنا ہوگا اوراس پراکسی وارکو موثرانداز میں لڑنے کا طریقہ سکھانا ہوگا اور یہی ہماری اصل ذمہ داری ہے۔
یہ طے ہے کہ موجودہ حالات میں اسرئیل کا خاتمہ براہ راست جنگ سے ممکن نہیں۔ زمینی حقائق کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ اسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا قیام اور اب تک اس کی بقا کے پیچھے کئی سیاسی اور اسٹرٹیجک عوامل کارفرما ہیں جن کے تانے بانے عالمی نظام کے بڑے کھلاڑیوں سے ملتے ہیں۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس باراسرائیل کے خلاف حماس کی جنگ ایک بہترین منصوبے کے تحت لڑی جا رہی ہے جس کا اصل مقصد اسرئیل کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کے صہونی چہرے کو بے نقاب کرنا ہے۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ خود اسرائیل میں عام یہودی، صہونیوں کی بربریت سے تنگ آچکے ہیں اور ان کے مظالم کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ نئی امریکی نسل میں اسرائیل کی حمایت میں واضح کمی ارہی ہے اور امریکی اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) کا اثر بھی کم ہورہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادرے کی رپورٹ کے مطابق جولائی 2022 کے ایک سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ 65 سے 60 سال کی عمر کے 67 فیصد امریکی اسرائیل کے بارے میں مثبت خیالات رکھتے ہیں لیکن 18 سے 29 سال کی عمر کے امریکی شہریوں میں یہ تناسب کم ہو کر 41 فیصد رہ جاتا ہے۔
اس کے تجزئیے میں کہا ہے کہ اس کی ایک وجہ اسرائیل میں دائیں بازو کی حکومتوں کی پالیسیاں اور غرب اردن میں آباد کاریوں کا تسلسل بتایا گیا ہے۔ اسی طرح امریکی پروفیسر اسٹیفن زونز کا کہنا ہے کہ ’نوجوان آبادی میں اسرائیلی رویے سے جڑے منفی تاثرات اب تک امریکی سیاست پر اثر انداز نہیں ہو سکے کیوں کہ سیاسی اور حکومتی میدان میں فیصلے کرنے والے اب تک اس نسل کے والدین اور دادا کی نسل کے لوگ ہیں تاہم یہ امکان روشن ہے مستقبل قریب میں صورتحال یکسر تبدیل ہو جائے گی۔
اسرائیل کو اس بدلتی ہوئی صورتحال کا اچھی طرح ادراک ہے اس لئے اس نے امریکی سائے میں اپنی تمام ترتوانائی عرب ممالک ،انڈیا اور بعض افریقی ممالک کے ساتھ روابط بہتر بنانے پرجنگی بنیادوں پر کام کیا تاکہ اس کے صہونے چہرے کا نقاب نہ اتر سکے اور اپنی عوام میں اس کی ساکھ قائم رہے اس کے علاوہ دائیں بازو کی امریکی سیاسی جماعتوں اور اداروں کو بھی امریکی عوام کی آنکھیں بند رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
میڈیا رپورٹس سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کے لئے امریکی امداد پر کانگریس کے علاوہ عوامی سطح پر بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی تھی۔ اسی طرح عرب، انڈین اور افریقی عوام کی اپنے حکمرانوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر ناراضی عیاں تھی۔
ان حالات میں حماس کی اسرائیل کے خلاف کارروائی ان جذبات کی رہنمائی تھی جن کے دو بڑے مقاصد پورے ہو چکے ہیں جبکہ تیسرے سب سے اہم مقصد پر ابھی کام جاری ہے جس کی ذمہ داری حماس سے زیادہ ہمارے کاندھوں پر ہے۔ پہلا مقصد اسرائیل کی سیکورٹی طلسم کومکڑی کا جال ثابت کرنا تھا جو اس کی اصل تھی، اور دوسرا مقصد صہونی اینٹلیجنس کے سراب کی حقیقت کو دنیا کے سامنے لانا تھا ،جو حماس نے کامیابی کے ساتھ کر دکھایا۔
تیسرا مقصد جو میں سمجھتا ہو سب سے اہم ہے، وہ یہ ہے کہ اسرائیل کا اصل صہونی چہرہ عوام کے سامنے لانا ہے اور اس میں نہ صرف حماس کو ہماری ضرورت ہے بلکہ انسانیت کی خاطر یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے حکمران اسرائیل کے اس مکروہ چہرے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اہل دانش بھی صہونی کردارسے بخوبی واقف ہیں تاہم افسوس کا مقام یہ ہے کہ دینا میں اکثر حکمران اپنے عوام سے کسی بھی طرح مخلص نہیں رہے اور بیشتر مفکرین اور پالیسی میکرز حکمرانوں کے زیر اثررہے ہیں جس کیوجہ سے حقائق عوام تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ لیکن اب حالات دل گئے ہیں، سوشل میڈیا فلیٹ فارمز نے عوام اور حقائق کے درمیان ان رکاوٹوں کو تقریبنا ختم کردیا ہے۔
اب فلسطین اسرائیل جنگ کا میدان میڈیا ہے، اس جنگ کے دو کارزار ہیں ایک کنونشنل میڈیا جس پر ابھی تک حکمرانوں کا کنٹرول ہے اور بقول نوم چومسکی یہ ایک پروپیگنڈا مشین ہے، جبکہ دوسرا سوشل میڈیا ہے جس پر بڑی حد تک عوام کو رسائی حاصل ہے، تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمزپر اس طرح بحث اسپائرل آف سائلنس کے تحت کیا جاتا ہے جسے جرمن ماہر سیاسیات الزبتھ نویل نیومن نے موثر پروپیگنڈا کے لئے تجویز کیا تھا۔
اس تھیوری میں کہا گیا ہے کہ کہ رائے عامہ کی تقسیم کے بارے میں ایک فرد کا تصور اس فرد کی اپنی رائے کے اظہار کو متاثر کرتا ہے،اس طرح اس کے نتیجے میں دیگرافراد کے تاثرات بھی متاثر ہوتے ہیں اور بالآخریہ دوسروں کو اپنی رائے کے اظہار پر آمادہ کرتاہے ۔جب لوگ دیکھیں گے کہ ان کی ذاتی رائے کو ایک گروپ میں شیئر کیا گیا ہے تو وہ اپنی رائے کے بارے میں زیادہ پر اعتماد ہو جائیں گے لیکن اگر فرد نے دیکھا کہ اس کی رائے گروپ میں غیر مقبول ہے تو وہ محفوظ رہنے اور خاموش رہنے کے لئے زیادہ مائل ہوگا۔
اس میدان میں حقیقی دانشوروں کی ذمہ داری جوانوں کے جذبات کی رہنمائی کرنا ہے، اصل احداف بتانے ہیں یہی اس جنگ کے ہتھیار ہیں ان کے موثر استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ اس پر کامیابی کا دارومدار ہے، یاد رہے کہ دشمن کو اس میدان اور اس میں لڑنے کے طریقے کا بخوبی اندازہ ہے۔
اسی تناظر میں ہماری تیاری بھی موثر ہونی چاہیے، ہمیں خواب خرگوش سے بیدار ہونا ہوگا کیونکہ دوشمن سوتا نہیں اور دعائوں کے ساتھ ساتھ میدان عمل میں آنا ہوگا اس لئے کہ دشمن میدان میں ہے۔ ظالم کے ظلم کو آشکار کریں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہو۔
تحریر: ڈاکٹر فضلی حسین