(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسلامک جہاد کے ملٹری ونگ القدس بٹالینز کے تین فوجی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کے دو دن بعد میزائل فورس کے کمانڈر اور نائب کمانڈر کو نشانہ بنائے جانے سے یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے حالیہ جارحانہ اقدامات کا مقصد اسلامک جہاد کا خاتمہ ہے۔
اسلامک جہاد اگرچہ تعداد کے لحاظ سے چھوٹا جہادی گروہ ہے لیکن شجاعت اور مردانگی کے لحاظ سے بہت بڑا ہے۔ حالیہ معرکے کے آغاز سے ہی اسلامک جہاد نے راکٹ حملے انجام دیے ہیں اور اس کے کمانڈرز شہید ہوئے ہیں لیکن نیتن یاہو کی اس جارحیت کے نتائج قابض رژیم، صیہونی فوج اور اس کے سربراہان کیلئے زلزلہ خیز ثابت ہوں گے۔ اسلامک جہاد کے سیاسی رہنما محمد الہندی کو مصر حکومت کی جانب سے سرکاری دعوت کے ذریعے جنگ بندی کے مذاکرات کیلئے قاہرہ بلایا گیا ہے۔
اگرچہ غاصب صیہونی رژیم نے اس معرکے میں صرف اسلامک جہاد کو نشانہ بنایا ہے لیکن شہید کمانڈرز کا انتقام لینے کیلئے غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے مشترکہ آپریشن روم کی جانب سے سدیروت، اسدود اور عسقلان پر 600 سے زائد راکٹ اور میزائل داغے جا چکے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے اسلامک جہاد کو ان میزائل حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی اجازت دے رکھی ہو تاکہ یوں آئندہ ہفتے انجام پانے والے عظیم معرکے کیلئے اپنی طاقت بچا کر رکھ سکے۔ یہ بڑا معرکہ اس وقت انجام پائے گا جب مقبوضہ بیت المقدس میں صیہونی آبادکار فوج کی مدد سے "پرچم ریلی” منعقد کریں گے۔ اسلامک جہاد نے اب تک میدان جنگ میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست قبول کرنے کیلئے تین شرائط پیش کی ہیں۔
اسلامک جہاد کی جانب سے جنگ بندی کیلئے پیش کردہ شرائط غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ اور مغربی کنارے میں اپنے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ روک دینے، شہید خضر عدنان کا جسد خاکی انہیں سونپے جانے اور پرچم ریلی کینسل کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد اقصی اور اس سے ملحقہ علاقوں کی بے حرمتی اور وہان جارحانہ اقدامات بند کر دینے پر مشتمل ہیں۔ یہ اسلامک جہاد کی پہلی کامیابی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ میدان جنگ کی فیصلہ کن طاقت ہے۔ اگر صیہونی فوج سمجھتی ہے کہ وہ جنگ کے علاوہ کسی اور طریقے سے اسلامک جہاد کی طاقت کم کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے تو یہ اس کا وہم ہے۔ اسلامک جہاد روز بروز طاقتور ہوتی جا رہی ہے اور اس کے میزائل کے ذخائر بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ ذخائر اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں جس کا تصور اسرائیلی فوجی ماہرین کر رہے ہیں۔
اسلامک جہاد کے مجاہدین کی قوت ارادی بھی بے مثال ہے۔ غزہ میں اسلامی مزاحمت کے پاس کامیابی حاصل کرنے کا ایک اور ہتھکنڈہ جنگ کو طول دینا ہے۔ اس وقت اسلامی مزاحمت کے میزائل حملوں کے خوف سے مقبوضہ فلسطین کے وسیع علاقوں میں لاکھوں صیہونی آبادکار پناہ گاہوں میں گھس جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یوں ان کی روزمرہ زندگی مفلوج ہو چکی ہے۔ دوسری طرف تل ابیب ایئرپورٹ کی تقریباً تمام پروازیں تعطل کا شکار ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم ایسی ایمرجنسی صورتحال زیادہ طویل مدت تک برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ ایسی صورت میں پورا سماجی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ پر جارحیت کے اگلے دن سے ہی اس نے مصر کی وساطت سے اسلامک جہاد سے جنگ بندی کیلئے منت ترلے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ حالیہ معرکہ طول پکڑ جائے گا۔
غاصب صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی سربراہاں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ دوسری طرف جو حقیقت صیہونی حکمرانوں کیلئے انتہائی خوفناک اور پریشان کن ہے وہ یہ کہ اگر حالیہ معرکہ طول پکڑتا ہے تو حماس اور دیگر مزاحمتی گروہ بھی اسلامک جہاد کا ساتھ دینے پر تیار ہو جائیں گے۔ حماس کے پاس موجود میزائل رینج اور ٹھیک نشانے پر مار کرنے کے اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ اس کے علاوہ حماس کے پاس موجود ڈرون طیارے اور جدید ہتھیار نیتن یاہو کی نیندیں حرام کر دینے کیلئے کافی ہوں گے۔ غاصب صیہونی رژیم نے اپنی جارحیت کے دو دن بعد جب جنگ بندی کیلئے مذاکرات چل رہے تھے ایک اور جارحانہ اقدام انجام دیا اور خان یونس میں اسلامک جہاد کی میزائل فورس کے کمانڈر علی حسن غالی کو شہید کر دیا۔ یہ ٹارگٹ کلنگ دراصل ثالثی کا کردار ادا کرنے والی قوتوں جیسے مصر حکومت کی واضح توہین ہے۔
حالیہ معرکے کا جاری رہنا اور چوتھے دن میں داخل ہو جانا غاصب صیہونی رژیم کی شکست اور نیتن یاہو کی سربراہی میں صیہونی کابینہ کے منہ پر طمانچے کی مانند ہے۔ اس وقت اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد اور وحدت عروج پر ہے۔ اب تک محاذوں میں وحدت قائم ہو چکی ہے اور اب اسلحہ، میزائلوں اور ڈرونز میں وحدت کی باری ہے۔ ماضی میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ فلسطین میں ہر معرکے کے بعد غاصب صیہونی رژیم کے خوف اور وحشت میں اضافہ ہوا ہے اور اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں اس کی طاقت میں زوال آیا ہے۔ اس بار بھی اسلامی مزاحمت کے میزائلوں نے نیتن یاہو اور صیہونی فوج کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کا منظر اس بار بن گورین ایئرپورٹ پر دہرائے جانے والا ہے۔