(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) فلسطین کے شہر جنین میں الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ کے ایک اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں قتل پر اسرائیل کی طرف گرد اچھالنے کا سلسلہ جاری ہے، مقصد یہ ہے کہ اس قتل کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
مغربی ممالک نے بھی اس واقعہ پر برائے نام تشویش ظاہر کی ہے۔ اس واقعہ نے میری 20 سالہ پرانی یادیں پھر سے تازہ کر دی ہیں جب میں اسی خطے میں رپورٹنگ کے لیے موجود تھا۔ ابو عاقلہ کے برعکس میں نے اپنے آپ کو مقبوضہ علاقوں میں فرنٹ پر نہیں رکھا۔ وجہ یہ تھی کہ میں جنگی رپورٹنگ کرنے والا صحافی نہیں تھا۔ جب بھی مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی ایکشن کی جگہ کے قریب ہوں تو ایسا بلاشبہ حادثاتی طور پر ہوا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے
امریکہ کہ دوغلی پالیسی: شیریں ابو عاقلہ پر گولی دانستہ نہیں چلائی گئی چلائی، امریکہ
مثال کے طور پر جنین میں ہی ایک مرتبہ جس سڑک پر تھا، سامنے سے ٹینک آ رہا تھا۔ اس کی بیرل سیدھی تھی۔ میرے ڈرائیور نے کمال حاضر دماغی اور پھرتی سے ٹیکسی واپس دوڑا دی تھی۔ غالباً یہ اس کے لیے پہلا موقع نہیں ہوگا۔ اسے ایسے حالات سے سابقہ پڑتا رہا ہوگا۔ رپورٹرز کی تنظیم کے مطابق 2018 سے اب تک صرف جنین میں 144 فلسطینی رپورٹز زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں ابو عاقلہ بھی شامل ہیں جو اسی عرصے میں گولی کا نشانہ بن گئیں۔
میں نے اس علاقے میں اپنے ملازمتی مدت کا زیادہ حصہ فلسطینی اموات کے مناظر دیکھتے گزارا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ فلسطینی اور اسرائیلی بیانیے کیا ہیں، میں نے کوشش کی کہ حالات کو اچھی طرح سمجھ سکوں کہ حقیقت واقعات کسی طرح رونما ہو رہے ہیں۔ ابو عاقلہ کا مارا جانا اور اس پر اسرائیل کا ردعمل نیا نہیں ہے۔ یہ ردعمل ایک مخصوص طریقے سے سامنے آتا ہے۔
یہ بات ہمیشہ سامنے آتی ہے۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ اس واقعہ کے فوری بعد اسرائیل کے وزیر اعظم نیفتالی بینٹ کا ردعمل سامنے آیا۔ انہوں نے اس ہلاکت کی ذمہ داری فلسطینیوں پر ڈال دی۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ وہاں مسلح فلسطینیوں میں سے ہی کسی کی کوئی کا نشانہ بن گئیں۔ وہ بے تحاشا فائرنگ کر رہے تھے۔ حساب چکتا کرنا ابو عاقلہ ایسی صحافی تھیں جو نہ صرف عرب دنیا میں پہچانی جاتی تھیں اور وہ فلسطین کے واقعات رپورٹ کرتی تھیں بل کہ انہیں اسرائیل کے جنگ پر آمادہ فوجی بھی اچھی طرح پہچانتے تھے۔
انہوں نے اس کے قتل پر بڑے بڑے پرجوش ردعمل کا اظہار کیا۔ جن فوجیوں نے اس پر گولی چلائی، وہ ابو عاقلہ کے ساتھ دیگر صحافیوں پر بھی فائر کر رہے تھے۔ ابو عاقلہ کو خصوصی طور پر نشانہ بنا کر مارا گیا۔
فلسطینی اس حقیقت کو خوب جانتے ہیں کہ گولی کا نشان ان کے ہیلمٹ کے بالکل نیچے کان کے پاس تھا۔ صاف لگتا تھا کہ بہت مہارت سے ٹارگٹ کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا قتل سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اسرائیل کی کوشش رہی ہے کہ الجزیرہ کے لیے رپورٹ کرنے والوں کو مارنے کے بہانے ڈھونڈے وہ ان پر پابندیاں لگاتا ہے یا انہیں پریس پاس دینے سے انکار کرتا آ رہا ہے۔
اس نے گزشتہ مئی میں غزہ میں میزائل سے حملہ کر کے میڈیا آفسز کو تباہ کر دیا تھا۔ اس میں الجزیرہ کا بھی آفس تھا۔ اہم ہدف وہی مرکز تھا۔ غالباً شیریں کو اسی لیے بڑی مہارت سے نشانہ بنایا گیا کہ وہ وہاں الجزیرہ کے لیے کام کر رہی تھیں۔ وہ اسرائیلی جرائم کی دلیرانہ رپورٹنگ کرنے کی شہرت رکھتی تھیں۔ تمام فوجیوں کا اس پر خار کھانا سمجھ میں آتا ہے۔ انہوں نے اسے نشانہ بنانے کے لیے اپنے مہلک ہتھیار بھی تیار کر رکھے تھے۔
’’دوستانہ فائر‘‘ اسرائیل کے اس مؤقف کو نفرت سے دیکھا جانا چاہیے کہ وہ کسی فلسطینی گولی کا نشانہ بنیں یا وہ وہاں ہونے والے نقصان کا ہدف بنیں۔ جی پی ایس اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس بے بنیاد بات کو بھک سے اڑایا جا سکتا ہے۔ جب اسرائیل محسوس کرتا ہے کہ اس کا مؤقف بہت کمزور ہے تو فلسطینیوں کو مارنے کے بہانے تراشتا ہے۔
ان میں سے ’’دوستانہ فائر‘‘ کا سہارا لینے میں وہ باک محسوس نہیں کرتا۔ اس خطے میں کام کے بالکل آغاز میں ہی میں نے ایک سبق سیکھا تھا۔ میں 2001 میں دوسری انتفاضہ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے وہاں گیا تھا۔ اسرائیلی پولیس نے 13 فلسطینی مار دیے تھے۔ مقبوضہ علاقوں میں ہونے والے واقعات کے برعکس یہ اموات ان فلسطینیوں کی تھیں جو اسرائیل کے اندر آباد تھے۔
انہیں شہریت کے برائے نام حقوق حاصل تھے۔ 2000 میں انتفاضہ شروع ہونے پر فلسطینی شہری سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ وہ سب مقبوضہ علاقوں میں اپنے ساتھی فلسطینیوں کے قتل عام پر احتجاج کر رہے تھے۔ وہ سب سخت غصے میں تھے۔ ان میں فرانس ٹی وی 2 پر آنے والی ایک فوٹیج بھی تھی جس میں ایک فلسطینی اپنے 12 سالہ بچے کو بچانے کی ناکام کوشش میں اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بن گیا تھا۔
بیٹا محمد الدرہ مارا گیا اور اس کا باپ جمال شدید زخمی ہو گیا تھا۔ تب بھی اسرائیل نے اس واقعہ پر شکوک کی گرد ڈالنے کی پوری کوشش کی تھی۔ وہ ایسا برس ہا برس کرتا رہا ہے۔ اس کی طرف سے کہا گیا کہ الدرہ کا قتل سٹیج کہا گیا۔
وہ لڑکا حقیقت میں زندہ تھا۔ فرانس ٹی وی کے عملے کے احتجاج کے باوجود ایسا کہا جاتا رہا۔ مقبوضہ علاقوں میں دیگر مقامات پر بھی متعدد بچوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو کہا گیا کہ سین بنانے کے لیے پرسنل ڈیجیٹل کیمرے استعمال کیے گئے۔ پشت سے گولی ماری گئی الدرہ کی ہلاکت بتا رہی تھی کہ اسرائیل کے قرب وجوار میں کیا ہو رہا ہے۔
یہ اس کے باوجود کہا گیا کہ مظاہرین غیر مسلح اور شہری تھے صرف 13 فلسطینی ہی نہیں قتل کیے گئے۔ سینکڑوں زخمی کر دیئے گئے۔ ایک اور واقعہ میں شہر نصیرات کے بالائی علاقے سے تعلق رکھنے والے مسلح یہودی ٹولے کے مارچ کی اعلانات کے بعد اسرائیلی اور فلسطینی آبادی میں شدید تنائو پیدا ہوا۔
دونوں ایک کراسنگ پر آمنے سامنے آگئے تھے۔ پولیس حملہ آوروں کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ ان کی نگرانی چھتوں پر مقرر سنائپرز کے رہے تھے۔ پولیس کا اصرار تھا کہ وہاں سے پہلے فلسطینی ہٹ جائیں۔ نصیرات سے آنے والے ہجوم کے کئی شرکاء جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ مجبوراً فلسطینی وہاں سے ہٹ گئے۔ ان میں سے دو فلسطینی سروں کی پشت پر گولی مار کر ہلاک کر دیئے گئے۔ اس کا جواز یہ دیا گیا کہ یہ ہلاکتیں اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ فلسطینی ان کے عقب سے پولیس پر فائرنگ کر رہے تھے۔
اسرائیلی کمانڈرز نے دعویٰ کیا کہ فلسطینی لوگ وہاں چھپ رہے تھے۔ ان کی گولیاں ان کے ساتھیوں کو لگیں۔ یہ سفید جھوٹ تھا۔ معصوم لوگوں کو فائرنگ کر کے مار دیا گیا۔ طاقت کا توازن یہی کچھ ابو عاقلہ کے معاملے میں ہوا۔ وہاں ہلاک کیے جانے والے کے واقعہ کے ذریعے سارے فلسطینیوں کو کھلا پیغام کہ طاقت کا توازن کس طرف ہے۔
مقصد یہ تھا کہ یہ انتباہ تھا تاکہ فلسطینیوں کو کہا جائے کہ خاموش رہیں۔ ورنہ انہیں اپنی جگہ دیکھ لینی چاہیے۔ نصیرات کے عوام نے ان احکامات کو نظر انداز کردیا۔ وہ اپنے شہر کے دفاع کے لیے احتجاج کرتے رہے۔ ابو عاقلہ نے بھی یہی کچھ کیا۔ وہ روزانہ دوسروں تک ساری ناانصافیوں اور دہشت کو بے نقاب کرتی رہیں۔ یہ غاصبانہ قبضے کے خلاف پرامن احتجاج تھا۔
ان احتجاجی سلسلوں کو اسرائیل نے ہمیشہ دہشت گردی قرار دیا۔ ابو عاقلہ اور دو دوسرے فلسطینی صرف اس لیے مارے گئے کیوں کہ ان پر گرم دماغ والے اسرائیلی فوجیوں نے فائر کھولا تھا۔ یا یہ کہ اسرائیلی آفیسرز نے فوجیوں کو حکم دیا تھا کہ اس واقعہ کو فلسطینیوں کے لیے پیغام عبرت بنا دیا جائے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیا تھے۔ یہ واقعات تو رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اسرائیلیوں کے لیے فلسطینیوں کو مارنا قابض قوت کے لیے کوئی خاص بات نہیں ہے۔
وہ ہر فلسطینی کے دل سے یہ خیال مٹانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی لمحے محفوظ ہے۔ ایک قابض یہ بتا رہا ہے کہ آبادی کو کس طرح دہشت زدہ کیا جاتا ہے۔ وہ شہریوں کو باور کرا رہا ہے کہ انہیں کس طرح قطرہ قطرہ بہا دیا جائے گا۔ وہ بھی ان کے اپنے گھر پر ایسا کر سکتا ہے۔ سبق سکھایا گیا ابو عاقلہ ان معدوے چند فلسطینیوں میں سے تھیں جن کے پاس امریکی شہریت تھی۔
وہ اور عرب دنیا میں ان کی شہریت وہ وجہ ہے جس نے واشنگٹن کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اس ہلاکت پر اداسی کا اظہار کرے اور ’’فارمولا تحقیقات‘‘ کا مطالبہ بھی کردیا گیا۔ ابو عاقلہ کا امریکی پاسپورٹ بھی انہیں اسرائیلی بہیمیت سے بچا نہیں سکا۔ 2003 میں ریچل کوری کو اسرائیلی بلڈوزر نے انہیں کچل دیا تھا۔ وہ غزہ میں فلسطینی گھروں کو بچانے کی اپنی سی کوشش کر رہے تھے۔
ٹام ہرینڈل کے پاس بھی امریکی پاسپورٹ تھا۔ وہ بھی غزہ میں فلسطینی بچے کو بچانے کی کوشش میں سر میں گولی مار کر خاموش کر دیئے گئے۔ فلم میکر جان ملر کے پاس بھی یہی پاسپورٹ تھا۔ انہیں اسرائیلی فوجی نے غزہ میں ہی گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ یہ 2003 کا واقعہ ہے۔
یہ سب جن کی گواہی دے رہے تھے جو بھی اسرائیل آیا تاکہ وہ یہاں ہونے والے ظلم و ستم کو بے نقاب کرے، وہ فلسطینیوں کے دفاع میں انسانی ڈھال بن گئے تھے۔ وہ بھی ٹریگر سے پیار کرنے والی اسرائیلی فوج کی کارروائیاں رپورٹ کر رہے تھے، سب ہی جان سے گئے۔ اسرائیل نے انٹرنیشنل سالیڈیریٹی تحریک کو مسترد کیا اور دہشت گردی کا راستہ اختیار کیے رکھا۔ ان کی زندگیوں کو حقیقی طور پر باور کرایا گیا کہ رضاکاروں کا آہستہ آہستہ خاتمہ ہو جائے گا۔
تمام کے تمام قتل فوجیوں نے کیے۔ وہ گرم گولی تھے۔ انہوں نے آرمی کے مقاصد پورے کیے۔ فیصلے میں غلطی میں واحد صحافی ہوں جس نے دوسری انتفاضہ کے دوران میں غیر ملکیوں کے قتل کی تحقیقات کیں۔ انروا کے لیے کام کرنے والوں میں سے لین ہک کو فوجی نے ہدف بنا کر قتل کیا۔ یہ واقعہ جنوبی کنارے جنین میں رونما ہوا۔ ابو عاقلہ بھی وہیں 20 سال سے کام کر رہی تھیں۔
ابو عاقلہ کی ہلاکت کو جس طرح دوسرا رنگ دینے کی کوشش کی گئی، تب بھی ایسا ہی پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ سارا الزام فلسطینیوں پر دھر دیا گیا۔ اسرائیل کی ساری کہانی جھوٹ کا پلندہ تھی۔ اسے آسانی سے غلط قرار دیا جا سکتا تھا۔ میرے علاوہ کوئی اور صحافی نہ تھا جس نے سارے معاملے کی پوری تحقیق کی ہو۔ ان دنوں میں محدود مواقع تھے۔
میں نے کوشش کی کہ غیر ملکی ذریعہ سے کہانی چھاپ دی جائے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس کا نشانہ باز ایک عمارت کی تیسری منزل سے دیکھ رہا تھا کہ فلسطینی ایک کمپائونڈ میں داخل ہوئے۔ اس مؤقف کے مطابق نشانہ باز کو سمجھا کہ کر یہ حملہ آور تھا۔ حالاں کہ ہک سرخ سروالا سا آدمی تھا۔ کک بھی 54 سال کا تھا۔ اس نے سمجھا کہ فلسطینی گن بردار ہے۔ یہ نشانہ باز دور بین سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اپنی پہلے سے تیار کہانی کو مزید رنگ دینے کے لیے نشانہ باز نے کہا کہ ہک کے ہاتھ میں جو موبائل فون تھا وہ اسے ہینڈ گرینڈ سمجھا اسے یوں لگا کہ ہک یہ گرینیڈ کمپائونڈ کے باہر موجود اسرائیلی فوجیوں پر پھینکنا چاہتا ہے۔
نشانہ باز کو علم تھا کہ یہ سارے امکانات ناممکن تھے۔ کمپائونڈ سیل کردیا گیا تھا۔ اسے تو کنکریٹ دیوار تعمیر کر کے سیل کیا گیا تھا۔ ایسا کرنے کے لیے اور بھی انتظامات کیے گئے تھے۔ کک کس طرح اپنا فون گرینیڈ باہر پھینک سکتا تھا۔ یہ بیان ہی اس کے گلے پڑ گیا۔ اگر وہ واقعی گرینیڈ تھا تو اسے خود کو اڑا لینا چاہیے تھا۔
سچ یہ تھا کہ کک سے فیصلہ کرنے میں غلطی ہوئی تھی۔ ایک طرف اسرائیلی فوج تھی اور دوسری طرف فلسطینی جنگجو تھے۔ اسرائیل انہیں اور ان کے بچوں کو محفوظ راستہ نہیں دے رہا تھا۔ انہوں نے گیٹ کھولا اور فوجیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ جیسا ہی اس نے یوں سے کیا، ایک طرف سے فلسطین گن مین نکلا۔
اس نے اسرائیل کی آرمرڈ گاڑی کی طرف فائر کردیا، کوئی زخمی نہ ہوا۔ کک نے دوبارہ کمپائونڈ میں پناہ لے لی اور اسے پھر سے سیل کردیا۔ لیکن باہر موجود اسرائیلی فوجی اقوام متحدہ کے اس افسر سے پہلے ہی خار کھائے بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک نے کک کے سر کا نشانہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ حساب برابر ہوسکے۔ بد اعتمادی اقوام متحدہ نے اس سارے معاملے کی تفصیلی تحقیقات کیں کہ ہک کس طرح سے پتل ہوئے ابو عاقلہ سے محبت کرنے والے بھی ایک دن اسی طرح کا فائدہ لے سکیں گے۔
اسرائیلی فوجیوں نے ابو عاقلہ کے گھر پر چھاپہ مارنے کا جواز ڈھونڈ لیا تھا۔ اس کا گھر مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں تھا۔ اسرائیلی فوج ان کے خاندان کو پریشان کرنا چاہتی تھی۔ اسرائیلی کوشش تھی کہ فارینزک آڈٹ کرایا جائے۔ ایک قاتل کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے جرم کی پوری تحقیقات ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہک کے معاملے میں بھی اقوام متحدہ کی تحقیقات خاموشی سے داخل دفتر کردی گئیں۔ اسرائیل پر اقوام متحدہ کے افسر کو قتل کرنے کا الزام تھا جو عالمی ادارے کو ایسی تحقیقات پر مجبور کرنا جو اسرائیل اور امریکہ میں خطرناک کش مکش کا سبب بنتیں۔
ابو عاقلہ کے معاملے میں بھی اس سے بہتر کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ تحقیقات کرانے کے لیے آوازیں اٹھیں گی۔ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی پر الزام لگائے گا کہ اس نے تعاون نہیں کیا۔ ایسا ہو بھی رہا ہے۔ امریکہ ہلکا سا بیان دے گا لیکن کچھ نہیں کرے گا۔ امریکہ درپردہ اس معاملے کو دبانے کے لیے اسرائیل کا ساتھ دے گا۔ امریکہ اور یورپ روٹین میں اظہار افسوس کے بیانات دے رہے ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں حالاں کہ وہ ایسا کچھ نہیں چاہتے۔
اس سے صرف ان کے تزویراتی اتحادی کو کچھ پریشانی ضرور ہوگی جو مشرق وسطیٰ میں مغربی قوت کے مفادات کے آگے بیان کرے گا۔ بالکل نہیں، یہ بیانات مغربی دارالحکومتوں کی جانب سے معاملہ دبانے کے لیے ہی ہیں۔ وہ صدائے احتجاج کو کسی اور طرف لے جائیں گے۔ وہ صرف عرب اتحادوں کے تفکرات کو ہی دور کرتے رہیں گے۔ انسانی حقوق کی برادری جنگی جرائم سے یہ سب جوڑے گی۔
سچائی یہ ہے کہ عشرے پر محیط قبضہ اسی طرح سے ممکن ہوسکتا ہے کہ سوچے سمجھے یا اچانک رونما ہونے والے واقعات کو استعمال کر کے دہشت پھیلائی جائے، آبادی کو خوف زدہ رکھا جائے اور کچھ نہ بولنے دیا جائے۔ جب دنیا کی بڑی قوت دہشت گردی کا ساتھ دے رہی ہو تو دہشت طاری کرنے والوں کے لیے موقع ہوتا ہے کہ جو چاہے کرے۔ ابو عاقلہ تازہ ترین شکار ہیں۔ ایسے واقعات جاری رہیں گے، لوگ مرتے رہیں گے۔ ایسا تب تک ہوتا رہے گا جب اسرائیلی فوجیوں کو کسی بھی جگہ جواب دہ نہیں ہونا پڑتا۔
تحریر: جوناتھن کک
بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین