(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مسیحی برادری نے الزام عائد کیا کہ صہیونی آباد کاری کی مختلف انجمنیں’عطیرت کوھانیم وغیرہ بیت المقدس کے پرانے شہر کے عیسائی اکثریتی علاقے میں آرتھوڈوکس چرچ کی ملکیتی جائیدادیں اسی طرح خریدنے کے کام کر رہی ہیں جس طرح مسلمانوں کی اراضی پر قبضہ جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسرائیل میں صہیونی باشندے سوائے نام نہاد یہودیوں کے کسی اور مذہب کے پیروکاروں کو قابض ریاست مین امن سے جینے کا حق دینے کو تیار نہیں جس کے نتیجے میں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسیحی برادری بھی مسلسل جارحیت کا نشانہ بن رہی ہے اور مقبوضہ بیت المقدس کے گرجا گھروں کے سربراہ اور سرپرستوں کی جانب سے صہیونی سوچی سمجھی سازش کے تحت اب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی املاک کوبھی بڑے پیمانے پر قبضے میں لینے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
کرسمس کے موقع پرعیسائی گرجا گھروں کے سربراہوں نے کہا ہے کہ "انتہا پسند صہیو نی آبادکارگروہ بیت المقدس کے پرانے شہر میں عیسائیوں کی موجودگی کو کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور رہائشیوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کے لیے خفیہ ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں، پادریوں پر حملے اور مقدس مقامات سمیت چرچ کی املاک کی بے حرمتی ہو رہی ہےجبکہ عیسائیوں کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کیلیے بیت الحم اور بیت المقدس کے درمیان زیارت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں جس سے شدید پریشانیوں کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔
دوسری طرف تل ابیب نے ان الزامات کواسرائیل میں مسیحی برادری کی حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔
اگرچہ گرجا گھروں کے سربراہوں کے بیان میں عیسائیوں کے لیے ایک محفوظ گھر کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیلی حکومت کے اعلان کردہ عزم کو تسلیم کیا گیا ہے،تاہم انہوں نے اسرائیل کی جانب سے ان انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکامی کی شکایت کی ہے۔