(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) نیفتالی بینیٹ نے جنوری 2013 میں اسرائیلی کنیسہ سے خطاب کرتے ہوئے بہت دوٹوک انداز میں کہا تھا ‘ اسرائیل خود ہی ننھا سا ملک اور ہماری ضرورت سے بہت چھوٹا ہے۔ ہمارے پاس کہاں اتنی گنجائش کہ فلسطینی ریاست تشکیل دے سکیں’۔ فلسطینی ریاست ہمارے لئے تباہی کا پیش خیمہ ہوگی۔
اتوار 13 جون کی شام اسرائیل میں تبدیلی سرکار یا نےاس شان سے حلف اٹھایا کہ 49سالہ نامزد وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کو رائے شماری تک اپنے وزیراعظم بننے کا یقین ہی نہ تھا۔بر سرِ اقتدار اتحاد معتدل اور بزعم خود لبرل، مستقبل پارٹی، سیکیولر قوم پرست نیلے اور سفید یا B&Wاتحاد، دائیں بازو کی قدامت پسند یمینہ (دایاں بازو)، بائیں بازو کی لیبر پارٹی، قوم پرست اسرائیل مادرِ وطن پارٹی، قدامت پسند امیدِ نو پارٹی، سیکیولر امیرٹس پارٹی اور اخوانی فکر سے وابستہ رعم پارٹی پر مشتمل ہے۔
قارئین کی دلچسپی کیلئے رعم کا ایک مختصر تعارف۔
اس جماعت کا اصل نام رعد یا کڑک ہے جسکا عبرانی تلفظ رعم بن گیا۔مشہور اخوانی عالم و دانشور عبداللہ نمر درویش نے فلسطین 48اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ نام کیساتھ 48 لگانے کامقصد اس عزم کا اظہار تھا کہ وہ فلسطینی جغرافیہ میں 1948 کے بعد آنے والی کسی تبدیلی کو تسلیم نہیں کرتے۔ نابلوس سے تعلق رکھنے والے اس درویش کی عمر اسوقت صرف 23 برس تھی اور موصوف اس سے پہلے کئی سال اسرائیلی جیلوں میں گزارچکےتھے۔ یہ وہ دور تھا جب تحریکِ آزادیِ فلسطین یا پی ایل او بہت مقبول تھی۔پی ایل او کے قائد جناب یاسر عرفات اور تنظیم کی ساری قیادت سیاسی اعتبار سے سیکیولر خیالات کی حامل تھی۔ ان حالات میں شیخ درویش نے آزادی برائے اقامتِ دین کا تصور پیش کیا اور جنوبی فلسطین کے صحرائی علاقے النقب (عبرانی تلفظ Negev)میں یہ تحریک بہت مقبول ہوگئی۔اس علاقے میں آباد فلسطینیوں کو صحرا کے حوالے سے بدو کہا جاتا ہے۔ خلیج عقبہ (ایلات) کے شمال میں واقع یہ صحرا اب ایک جدید شہر میں تبدیل ہوگیا ہے اور ساحل پر فیشن ایبل فائیو اسٹار ہوٹلوں، مئے خانوں اور عشرت کدوں کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ 1948 تک یہ لق و دق صحرا تھا۔ اسرائیل کے قیام سے پہلے یہاں عربوں کی اکثریت تھی لیکن جبری قبضہ و آبادکاری کی بناپر عرب آبادی اب سکڑ کر 25 فیصد رہ گئی ہے۔
ترک خلافت کے دوران یہاں کا سب سے بڑا شہر بئر السبع (سات کنویں) آباد ہواجو بیر شیبہ Beersheebaکہلاتا ہے۔ روائت کے مطابق صحرا میں پانی جیسی عظیم الشان نعمت کا ذکر کرکے حضرت ابراہیم خدائے واحد کی عبادت کی دعوت دیتے تھے اور یہاں کنووں پر ‘نو مسلم’ اللہ اور صرف اللہ سے وفاداری کا حلف اٹھاتے تھے۔ اپنے عظیم الشان والد کے اتباع میں انکے جلیل القدر صاحبزادے حضرت اسحٰق کنووں کی منڈیر سے وعظ ارشاد فرماتے اور پانی عطاکرنے والے رب کی اطاعت کی دعوت دیتے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ مشرکین نے پانی دیوتا کی عبادت شروع کردی تھی جس کی نفی کیلئے حضرت اسحٰق ان کنووں پر اللہ کی توحید بیان کرتے اور یہیں لوگوں سے توحید کا حلف لیتے۔ عبرانی زبان میں حلف ، کنویں اور سات تینوں کیلئے لفظ Sheva(شبع) استعمال ہوتا ہے۔ ترک ماہرین آثار قدیمہ نے ساتوں کنویں تلاش کرلئے تھے لیکن برطانوی دور میں سپاہیوں کی آمدو رفت کیلئے سڑکوں کی تعمیر کے دوران اکثر کنوویں ملیا میٹ ہوگئے۔
اس علاقے میں ترک عثمانیوں نے مساجد، مدارس اور خانقاہیں تعمیر کیں اور ایک دور میں النقب خاص طور سے بئیر السبع اسلامی تعلیم کا بہت بڑامرکز تھا۔ اس زمانے میں دینی و دنیاوی تعلیم میں کوئی فرق نہ تھا اور ان مدارس میں تحفیظ قرآن و شرعی علوم کیساتھ لسانیات، جغرافیہ اور علوم فلکیات بھی پڑھائے جاتے تھے۔ اسرائیل کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ جامعہ بن گوریان النقب، بئر الشیبہ ہی میں ہے جہاں ایک چوتھائی سے زیادہ فلسطینی طلبہ زیرتعلیم ہیں تاہم جوہری طبعیات، Advanced Mathematicاور فلکیات کے شعبہ جات میں عربوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ ان علوم کی تعلیم کیلئے یہاں کے طلبہ جامعہ اسلامیہ غزہ جایا کرتے تھے جسے گزشتہ دنوں اسرائیلی بمباروں نے پیوندِ خاک کردیا۔
اسلامی تحریک النقب کے ‘بدووں’ میں بہت مقبول ہوئی، خصوصاً بئر الشیبہ اور اسکے مضافات میں تحریک نے رفاحی کاموں کا جال بچھا دیا اور جگہ جگہ اسکول، دواخانے اور فنی تعلیم کے مراکز قائم ہوگئے۔ اسرائیلی حکومت کی توجہ جنوب میں ساحلی علاقوں کی ترقی پر تھی جہاں سیاحوں کیلئے ہوٹلوں اور دوسری سہولیات کا انتظام کیا جارہا تھا۔
اسی دوران جنوبی النقب کے ارکان نے اسرائیلی انتخابات میں حصہ لینے کی تجویز پیش کی۔ اس قرارداد نے تحریک کو تقسیم کردیا۔ شمالی النقب کے ارکان نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی شدید مخالفت کی۔ تحریک کے امیر ابراہیم سرسور کا موقف تھا کہ متناسب نمائندگی کے نظام کا فائدہ اٹھاکر عرب اور مسلمان، کنیسہ کی پچیس فیصد نشستیں جیت سکتے ہیں اور پارلیمان میں اتنی بڑی قوت کی حامل پارلیمانی پارٹی کو نظر انداز کردینا کسی کیلئے ممکن نہ ہوگا۔ تاہم اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکا اور معاملہ اس حد تک بڑھا کہ تحریک شمالی اور جنوبی شاخ میں تقسیم ہوگئی۔ انتخاب میں حصہ لینے کے حامیوں نے جنوبی شاخ کے نام سے تل ابیب کے مضافاتی علاقے کفر(دیہات) قاسم میں اپنا مرکز قائم کرلیا جبکہ شمالی شاخ نے بئر الشیبہ کے مرکز سے دعوتی کام جاری رکھا۔
جنوبی شاخ نے 1996میں سیاسی طور پر پہلے سے سرگرم عرب تنظیم، قائمہ المشترکہ یا Joint Listکے پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لینا شروع کیا۔ تناسبِ آبادی کی بنیاد پر ایک چوتھائی کنیسہ کی توقع کرنے والوں کو پہلا ذہنی دھچکہ اسوقت لگا جب ‘عرب شہریوں’ میں ووٹر رجسٹریشن کی مہم شروع کی گئی۔ اسرائیل قانون کے تحت 1967 کے بعد ہتھیائے گئے علاقے کے لوگ قانونی طور پر ‘مہاجر’ سمجھے جاتے ہیں جو اسرائیلی شہریت کے حقدار نہیں لیکن قیام اسرائیل یعنی 1947 کے وقت جو عرب، یروشلم، اسکے مضافات، النقبہ، حیفہ اور دوسرے علاقوں میں آباد تھے انھیں اسرائیلی شہری تسلیم کر لیا گیا۔ اسرائیل کی کل آبادی میں ایسے عربوں کا تناسب 25 فیصد کے قریب ہے جن میں 21 فیصد مسلمان اور باقی ماندہ 4 فیصد مسیحی ہیں۔ اسی بنا پر تحریک اسلامی کی شمالی شاخ اپنی کامیابی کیلئے بے حد پرامید تھی۔
لیکن ووٹر رجسٹریشن پر درج معلومات کی بنا پر سینکڑوں فلسطینی دہشت گردی کے الزام میں دھر لئے گئے۔ اسرائیل میں یہ قانون ناٖفذ ہے کہ معصوم بچے سمیت گھر کےکسی شخص پر بھی دہشت گردی کا الزام ثابت ہوجانے کی صورت میں اسکا گھر مسمار کرکے زمین نیلام کردی جاتی ہے۔ قانون کے مطابق پولیس افسر کو گھور کر دیکھنا بھی دہشت گردی ہے۔ ووٹر رجسٹریشن کے فارم پر گھر کے ہر فرد کی معلومات درج کرنا ضروری ہے جسکی تفصیلی چھان بین کے بعد ووٹر فہرست میں اندراج ہوتا ہے۔ چھان بین کے اس سخت اور متعصب نظام کے خوف سے نصف کے قریب عرب بطور ووٹر رجسٹر ہی نہیں ہوتے۔انتخابات کے دن عرب علاقوں کی نگرانی سخت کردی جاتی ہے۔ ‘دہشت گردوں’ کی جانب سے جمہوری عمل میں متوقع رکاوٹ کے سدباب کیلئے مسلم علاقوں میں چھاپے اور پکڑ دھکڑ کا بازار گرم رہتا ہے۔
انتخابی مراکز کی نگرانی کیلئے پولنگ بوتھ کے اندر کیمرے نصب ہیں۔ انتہاپسند اور قدامت پسندوں کی جانب سے مسلمان ووٹروں کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں، چنانچہ عرب اور خاص طور سے مسلم علاقوں میں ووٹ ڈالنے کا رجحان خاصہ کم رہتا ہے۔اس بار بھی پورے اسرائیل میں ووٹ ڈالنے کا تناسب ساڑھے 67 فیصد رہا لیکن عرب علاقوں میں 35 فیصد سے کم ووٹ ڈالے گئے۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی انتخابات میں جوائنٹ لسٹ کو 13فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں مل سکے۔
اختلافات کے باوجود شمالی اور جنوبی دھڑوں نے ایکدوسرے خلاف بیان بازی سے پرہیز کیا۔ نومبر 2015 میں اسرائیل نے حماس کی حمایت اور اخوان المسلمون سے وابستگی کا الزام لگاکر تحریک اسلامی شمالی برانچ پر پابندی لگادی لیکن یہ کالعدم تحریک فلسطینی علاقوں میں پوری طرح سرگرم ہے۔ اسکے مُرشدِ عام (امیر) شیخ رائداصلاح حیفہ کے سب سے بڑے شہر اُمّ الفحم کے رئیسِ شہر رہ چکے ہیں۔ جامعہ ہیبرون سے اسلامی شریعہ میں ایم اےکرنے والے 63 سالہ رائد اصلاح کی زندگی کا بڑا حصہ جیل میں گزرا اور آجکل بھی شیخ صاحب پسِ دیوارِ زنداں ہیں۔
جنوبی دھڑے نے تحریک اور سیاسی سرگرمیوں کیلئے علیحدہ نظام قائم کررکھا ہے۔ تحریک کے ماہر جواںسال حمادابودعابس اور سیاسی ونگ یعنی رعم کے قائد منصور عباس ہیں۔ سیاسیات میں ایم اے منصور عباس ایک عالم دین بھی ہیں اور اختلافات کے باوجود شمالی دھڑے کے سربراہ شیخ رائد سے بات چیت چلتی رہتی ہے۔ جنوبی و شمالی دھڑوں کے امرا بھی رابطے میں ہیں اور اسی بناپر متوازن بلکہ کسی حد تک لبرل سمجھے جانے والے جنوبی دھڑے کے امیر اپنے شمالی ہم منصب کے ساتھ دعوتی دروس میں شرکت کی بناپر کئی بار جیل بھی ساتھ جاچکے ہیں۔
شاید بہت سے قارئین کو تحریک اسلامی فلسطین پر یہ تفصیلی گفتگو موضوع سے کچھ ہٹی ہوئی لگی ہو جس پر معذرت لیکن ہمارا خیال ہے کہ مسلم دنیا کے نقطہ نظر سے اسرائیل کی داخلی سیاست پر سیر حاصل بحث کیلئے تحریک اسلامی فلسطین کے بارے میں بنیادی معلومات کسی حد تک ضروری ہیں اور شدید نظریاتی اختلافات کے باوجود تحریک کے دونوں دھڑے جس اعلیٰ ظرفی اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کررہے ہیں اسکا مشاہدہ و مطالعہ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ تلاش کرنے والے دانشوروں کیلئے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
اب آتے ہیں حکومت سازی کی طرف توگزشتہ بدھ کو جب نامزد وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کی رہائش گاہ پر آٹھ جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کامشترکہ اجلاس ہوا تو اس سے پہلے ہی نیفتالی کی یمینہ پارٹی کے ایک رکن بغاوت کا اعلان کرچکے تھے۔دوسری طرف مذہبی عناصر اور سیاسی قدامت پسندوں نے اتحاد سے وابستہ خواتین ارکانِ کنیسہ کو ہراساں کرنے کی زبردست مہم شروع کررکھی تھی، جسکی بناپراکثر خواتین اجلاس سے غیر حاضر تھیں تاہم وہ فون پر نیفتالی کواپنی وفاداری کا یقین دلاچکی تھیں۔جب اجلاس کے اختتام پر نفری گِنی گئی تو جناب بینیٹ کو اعتماد کا یقین دلانے والوں کی تعداد61 تھی جو 120 میں کے ایوان میں حکومت سازی کیلئے کم سے کم تعداد ہے۔ضابطے کے مطابق اتحاد کے قائد اور مستقبل پارٹی کے سربراہ یائر لیپد نے جمعہ کی شام کنیسہ کے اسپیکر کو سرکاری خط میں حامی ارکان کی تعداد کے ساتھ نامزد وزیر اعظم اور انکی 9 خواتین سمیت 27 رکنی کابینہ کے نام بھیج دیے۔ اعتماد کیلئے کنیسہ کااجلاس اتوار کو ہونا تھا۔
کابینہ کے لئے جو نام سامنے آئے اس پر رعم کو سخت مایوسی ہوئی کہ اس میں آٹھ رکنی اتحاد کی سات جماعتوں کو بھرپور نمائندگی حاصل ہے۔ ہر جماعت کو دو سے تین قلمدان سونپے جارہےہیں لیکن رعم کو کابینہ سے دور رکھا گیا تھا۔ کچھ نام عربوں کیلئے سخت قابل اعتراض تھے جیسے
- وزارت دفاع بینی گینٹز کو سونپی جارہی ہے جنھیں فلسطینی قصابِ غزہ کہتے ہیں۔
- وزارت داخلہ کیلئے محترمہ ایلٹ شیکڈ کا انتخاب کیا گیا ہے جو الشیخ جراح کو ہر قیمت پر خالی کرانا چاہتی ہیں۔
- انتہائی قدامت پسند زیو ایلکن وزیر ہاوسنگ و تعمیرات ہونگے۔ یہی وزارت فلسطینیوں کی زمینوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کی ذمہ دار ہے۔ اسی کیساتھ موصوف کو امور یروشلم بھی سونپا جارہا ہے۔
- سراغرسانی کے وزیر ایلزراسٹرن بھی سخت گیر سمجھے جاتے ہیں۔
- قبضے المعروف Settlementکا قلمدان نراور باش (Nir Orbach)کےپاس ہوگا۔ نیفتالی بینیٹ کے یہ قریبی ساتھی اس بات پر روٹھے ہوئے تھے کہ رعم کو اتحاد میں کیوں شامل کیاگیا ہے۔ انھیں خدشہ تھا کہ اسلام پسند نئی اسرائیلی بستیوں کا قیام رکوا دینگے۔اوربش صاحب نے دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیلی بستیوں کی تعمیرجاری رکھنے کی ضمانت نہ دی گئی تو وہ نیفتالی کو اعتماد کا ووٹ نہیں دینگےجس کے بعد انکے تحفظات دور کرنے کیلئے موصوف کو وزیرِ امورِ نو آبادی یاAffairs Settlementبنادیا گیا۔
- بارہ رکنی سیکیورٹی کابینہ یا کچن کیبینٹ بھی قدامت پسند اور سخت گیروں پر مشتمل ہے۔
- معتدل و معقول ارکان میں لیبر ہارٹی کے عمر بارلیف وزیر پبلک سیکیورٹی، محترمہ ثمر زینڈبرگ وزیر ماحولیات اور محترمہ میری مشیلی شامل ہیں۔
پسندیدہ وزارت کی شکل میں نر اورباش پر خصوصی مہربانی اور انکی جانب سے حمایت کے اعلان کے بعد نیفتالی بینیٹ 61 ووٹوں کی حمائت کی ‘امید’ کررہے تھے جو واضح اکثریت کیلئے ‘کافی’ تھی۔ کنیسہ میں اجلاس کے آغاز پر قدامت پسندوں کا رویہ خاصہ جارحانہ تھا۔ نیفتالی کے ایوان میں آتے ہی ہال غدار، بے ایمان، ووٹ چور، عربوں کا کاسہ لیس اور سازشی کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ارکان دیر تک فرش پر جوتے رگڑتے رہے۔ سیٹیوں اور نعروں کے شور میں کوئی بات سنائی نہ دیتی تھی۔ حتٰی کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے خود اپنے ارکان سے متانت اختیار کرنے کی درخواست کی۔ جب شور تھما تو رعم پارٹی کے رکن سعید الحرومی کھڑے ہوگئے اور انھوں نے گفتگو کی اجازت طلب کی۔ضابطے کے تحت اعتماد کے ووٹ سے پہلے پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت نہیں لیکن سعید صاحب نے کہا کہ ‘اسپیکر صاحب میں نہیں میرا ضمیر کچھ عرض کرنا چاہتا ہے’ اجازت ملنے پرجذبات سے رندھی آواز میں سعید الحرومی نے کہا ‘میں کیسے اس وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دے سکتا ہوں جو ہمیں بےدخل کرکے ہماری زمینوں پر اسرائیلی آبادیوں کا قیام جاری رکھنا چاہتا ہے۔ جس کی پوری کابینہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جنکے ہاتھوں پر ہمارے بچوں کا لہو ہے’۔ انھوں نے سوال کیا کہ ‘بی بی (نیتن یاہو) اور نیفتالی بینیٹ میں کیا فرق ہے اور میں نیفتالی پر کیسے اعتماد کرسکتا ہوں؟’ تبدیلی سرکار سے ہماری قسمت تبدیلی نہیں ہوگی اور یہ قبضہ مافیا کا تسلسل ہے۔ سعید کی تقریر سے نیفتالی اور تبدیلی اتحاد کےارکان ہکا بکا رہ گئے ، نیتن یاہو کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا لیکن سعید الحرومی نے یہ کہہ کر بی بی کو بھی مایوس کردیا کہ “میں اس تماشے کاحصہ نہیں بنوں گا”رائے شماری کے دوران سعید غیر جانبداررہے۔کنیسہ کے 120میں سے 60ارکان نے نیفتالی پر اعتماد کا اظہار کیا جبکہ 59 ارکان نے مخالفت میں ہاتھ بلند کئے۔نیفتالی کی وزارت عظمٰی اخلاقی اعتبار سے مستند نہیں کہ وہ واضح اکثریت یعنی 61ووٹ لینے میں ناکام رہے۔
اسی بنا پر سبکدوش ہونے والے وزیرعظم نیتن یاہو نے کہا کہ حکومت ایوان کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اسپیکر صاحب! معاملہ آگے کیسے بڑھے گا؟ انھوں نے اپنے حامیوں کو نئے انتخابات کی تیاری کی ہدایت کی۔
معاہدے کے تحت نفتالی بینیٹ پہلے ڈھائی سال وزیراعظم رہینگے جسکے بعد مستقبل پارٹی کے سربراہ یائر لیپد اقتدار سنبھالینگے۔ اننچاس سالہ نیفتالی امریکی ریاست کیلی فورنیا سے اسرائیل منتقل ہونے والےیہودی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ وہ اسرائیلی فوج کے چھاپہ مار دستے میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ نامزد وزیردفاع بینی گینٹز کی طرح نیفتالی بھی بہت فخر سے کہتے ہیں کہ انھوں نے درجنوں فلسطینی دہشت گردوں کو اپنے ہاتھوں سے ہلاک کیا ہے۔ جنوری 2013 میں اسرائیلی کنیسہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بہت دوٹوک انداز میں کہا’ اسرائیل خود ہی ننھا سا ملک اور ہماری ضرورت سے بہت چھوٹا ہے۔ ہمارے پاس کہاں اتنی گنجائش کہ فلسطینی ریاست تشکیل دے سکیں۔ فلسطینی ریاست ہمارے لئے تباہی کا پیش خیمہ ہوگی۔
اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانیوالے فلسطینی بچوں کے بارے میں انھوں نے کہا ‘ یہ بچے نہیں دہشت گرد ہیں، ہمارا میڈیاخود ہمیں ہی بیوقوف بنارہا ہے۔
تاہم جمعہ کو رعم کے ارکان کنیسہ سے ملاقات میں انھوں نے یقین دلایا کہ تبدیلی سرکار، بلا امتیاز تمام اسرائیلیوں کی یکساں خدمت کریگی۔ مذہبی عناصر ہوں یا دیندار، قدامت پسند یہودی یا عرب سب ایک ہیں۔( وزیراعظم نیفتالی کے دعوے اور ضمیر کی آزمائش 15مارچ کوصہیونی انتہا پسندوں کے فلیگ مارچ کے انعقاد پر ہونی تھی جس کی اجازت دے کر فلسطین میں ایک بار پھرکشیدہ صورت حال پیدا کر دی گئی ہے۔
یہ دن 1967 کی جنگ میں یروشلم پر قبضے کی یاد میں عبرانی سال کے دوسرے مہینے ایار Iyarکی 28تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اس سال 10 مئی کو ایار کی 28 تھی جب القدس شریف میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان شدید تصادم ہوا۔مسجد اقصی کی بےحرمتی پر مشتعل ہوکر اہل غزہ نے تل ابیب پر راکٹ حملے کئےجسکے نتیجے میں گیارہ روزہ جنگ کا آغاز ہوا۔لڑائی کی بنا پر یروشلم مارچ معطل کردیا گیا۔ جنگ بندی کے بعد جلوس کیلئے 10 جون کی تاریخ دی گئی لیکن منتظمین نے مظاہرہ نئی حکومت کے قیام تک ملتوی کردیا۔ اس مارچ کیلئے جو اجازات نامہ جاری کیا گیاتھا اسکے مطابق مظاہرین کو مشرقی بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ تک جانے کی اجازت دی گئی تھی ۔ نئی وزیرداخلہ نے امن بحال رکھنے کے عزم کیساتھ یہ فرمایا کہ اظہارِ رائے کی آزادی شہریوں کا بنیادی حق ہے اور اس میں رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی۔ یہ ان فلسطینیوں کیلئے انتباہ تھا ہے جو پرعزم تھے کہ مظاہرین کو اقصیٰ کمپاونڈ میں نہیں داخل ہونے دیا جائیگا۔ حماس نے اسی روز یوم سیاہ منانے کا اعلان کیاتھا، سیاسی مبصرین منگل کو ایک اور خونریز تصادم کا خوف ظاہر کررہے تھے جو ہوکر رہا۔
نیفتالی صاحب کی یقین دہانیاں اپنی جگہ رہیں لیکن انتہاپسندوں کو مسجد اقصیٰ تک آنے کی اجازت کے بعد اسلامی خیالات کی حامل جماعت کے ووٹوں سے برسراقتدار آنے والی حکومت سے بھی فلسطینیوں کو راحت کا کوئی نشان نہیں ملا۔
اور اس وقت سے لے کر اب تک صہیونی فوج نے جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ پر دو روز سے پھر بم باری کی جارہی ہے ۔مقبوضہ فلسطین کے کئی علاقوں میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا نشانہ بن کر اور گھر گھر چھاپوں کے دوران اب تک کئی بے گناہ نوجوان فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں۔)