(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) مسئلہ فلسطین کی حمایت میں جہاں دنیا کی دیگر اقوام پیش پیش رہی ہیں وہاں شروع ہی سے یمن ایک ایسا ملک اور یمنی قوم ایسی قوم رہی ہے کہ جس نے فلسطین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کے خلاف ہمیشہ احتجاج کیا اور فلسطین کاز کی حمایت کی ہے۔ اس راستے میں یمن کے متعدد اہم رہنما شہید ہوئے اور یمن کو ہمیشہ ہی عالمی استعماری قوتوں کی ناپاک سازشوں کا سامنا رہا۔
جمعۃ الوداع یوم القدس کی آمد ہے تاہم اس موقع پر راقم یمن کے کردار کو یوم القدس اور فلسطینیوں کی حمایت کے تناظر میں اجاگر کرنا چاہتاہے۔
یمن کی ماضی کی تاریخ سے ہٹ کر اگر گذشتہ چند سالوں کی ہی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سنہ 2015ء سے یمن پر ایک بھیانک جنگ مسلط کی گئی اور یمن کا اسی طرح سے محاصرہ کیا گیا جس طرح سنہ 2007ء میں غزہ کا محاصرہ شروع کیا گیا تھا۔ یمن پر سعودی عرب، متحد عرب امارات اور امریکہ و برطانیہ سمیت اسرائیلی اتحادیوں نے نو سال تک بد ترین جنگ اور محاصرہ قائم رکھا۔ یمن میں ہزاروں لوگوں کو بمباری میں قتل کر دیا گیا۔ غزہ بھی محاصرے میں رہا اور یمن بھی محصور ہو کر رہ گیا۔ یمن تک ایک روٹی مدد پہنچانا بھی نا ممکن تھا۔
اقوام متحدہ کی فوڈ ایجنسی نے سنہ2021ء میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں بیان کیا گیا کہ دور حاضر کی جدید ترین دنیا او ر اکیسویں صدی میں یمن دنیا کا ایسا ملک ہے کہ جہاں لوگ بھوک اور قحط سے بچنے کے لئے پتوں اور گھاس پھوس کو کھا کر زندگی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی رپورٹ کی اگلی سطور میں تحریر کیا گیا تھا کہ یمن ہی میں ایسے علاقے بھی موجود ہیں کہ جہاں گھاس پھوس اور پتے بھی میسر نہیں ہیں۔ بچے بھوک سے بلک کر مر رہے ہیں۔ مائوں کا دودھ خشک ہونے کی وجہ سے کمسن بچوں کی اموات میں بے پناہ اضافہ ہو رہاہے۔حاملہ مائیں غذا اور ضروری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے شدید سحت کے مسائل میں شکار ہیں جس کی وجہ سے پیداہونے والے بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ یعنی یمن بد ترین ظلم اور شکنجہ کا سامنا کر رہاتھا۔ یہ صورتحال نو سال تک جاری رہی اور آخر کار یمن کے عوام او انصار اللہ کی استقامت اور صبر کے سامنے عالمی استعماری طاقتوں اور خطے کے بدمعاش عرب حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنا پڑے۔
یہاں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ سنہ2021ء میں اقوام متحد ہ کی فوڈ ایجنسی نے رپورٹ جاری کی اور اسی سال جمعۃ الوداع یوم القدس کے اجتماع میں یمن کے قائد اور رہنما سید عبد الملک بدر الدین حوثی نے خطاب بھی کیا اور اس خطاب میں پوری دنیا کو واضح کیا کہ یمن پر جس قدر ظلم اور شکنجہ روا رکھا جائے گا یمن اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ سید عبد الملک کے تاریخی الفاظ آج بھی قوموں کی رہنمائی کر رہے ہیں کہ جس میں انہوںنے کہا تھا ’’خدا کی قسم ! اگر آج اس سخت ترین حالت میں یمن کو ایک روٹی کی مدد مل جائے تو ہم ایک روٹی میں سے آدھی روٹی اپنے غزہ کے محصور بھائیوں کو دیں گے اور آدھی روٹی ہم یمن کے اپنے بچوں کو دیں گے‘‘۔ یہ ہے یمن اور یمن کا پختہ ارادہ جو فلسطین کی حمایت کو اپنے حقیقی اور بنیادی اصول سمجھتا ہے۔
سنہ2023ء میں ایک طرف یمن میں جنگ بندی ہوئی تو دوسری طرف غز ہ پر جنگ مسلط کر دی گئی ۔ تازہ تازہ جنگ سے نکلا ہوا یمن ابھی سنبھل ہی نہ پایا تھا کہ اسے غزہ کے لئے دوبارہ سے کھڑے ہونا پڑا ۔ یمن نے اعلان کیا کہ غزہ پر امریکی و اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ نہ ہوا تو یمن بحیرہ احمر کے سمندری راستوں کو بند کر دے گا اور پہلے مرحلہ میں یہاں سے کسی بھی ایسے بحری جہاز کو گزرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی بندرگاہوں کی طرف جا رہاہے ۔اسی طرح غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سے تعلق رکھنے والے تمام بحری جہازوں کے لئے بحیرہ احمر کو آمد و رفت کے لئے بند کر دیا گیا۔اس اعلان کی خلاف ورزی کرنے پر یمن کی مسلح افواج نے اسرائیلی بحر ی جہازوں کو نشانہ بنایا اور انہیں سمندر مین غرق کرنا شروع کر دیا۔امریکہ او ر برطانیہ نے یمن کی مسلح افواج کے خلاف بمباری کی تو یمن کی مسلح افواج نے یہ ناکہ بندی کا دائرہ بڑھا کر امریکی اور برطانوی بحیری جہازوں اور کشتیوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
جب یمن کے انصار اللہ کے قائد سید عبد الملک بدر الدین حوثی کو کہا گیاکہ امریکہ اور برطانیہ سمیت اسرائیل کے ساتھ تنازع یمن کے لئے خطر ناک ہو سکتا ہے تو یمن کے اس عظیم قائد اور رہبر نے ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کو اپنے تاریخی جملوں سے حیران کر کے رکھ دیا او ر واضح کر دیا کہ یمن فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو گا۔ سید عبد الملک بد رالدین حوثی نے کہا کہ ہم صرف اللہ سے ڈرتے ہیں امریکہ اور برطانیہ یا اسرائیل سے نہیں۔ اگر ہم نے فلسطین کے مظلوموں کی اپنی استطاعت کے مطابق مدد نہ کی توہمیں اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئیے نہ کہ امریکہ اور اسرائیل سے۔ انہوںنے کہا اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اگر غزہ پر بمباری ہے تو یمن پر بھی بمباری ہے ہمارا درد ایک جیسا ہے ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے اور غزہ کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
یمن کے اس عظیم قائد کے شجاعت منداور غیرت مند فیصلوں کے باعث امریکہ ، برطانیہ اور غاصب اسرائیل کی معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ یمن کی مسلح افواج نے فلسطینی عوام کی حمایت میں غاصب صیہوی ریاست اسرائیل کے اہم مراکز پر یمن سے میزائل بھی فائر کئے ہیں اورحالیہ اطلاعات کے مطابق یمن کی کاروائیوں میں اعلان کیا گیا ہے کہ بن گوریون ایئرپورٹ کو چلنے نہیں دیں گے۔ یمن نے تل ابیب کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔یہ یمن کے انصار اللہ ہیں۔یہ فلسطین کے ساتھ ہیں۔ یہ غاصب صیہونی دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں۔
اب ذرا یمن کے عوام کی بات کریں تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ سولہ ماہ سے یمن کے لاکھوں عوام ہر جمعہ کو سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔یہ دنیا میں ہونے والے مظاہروں میں سب سے بڑے مظاہرے ہیں ۔اسی طرح یمن میں حالیہ دنوں ہی عالمی فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی ہے جس میں فلسطین فائونڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل یعنی راقم ڈاکٹر صابر ابو مریم نے لائیو خطاب کیا ہے جبکہ دنیا بھر سے ساتھیوں نے وہاں پر شرکت کی ہے۔ یمن فلسطین کی حمایت میں پیش پیش ہے۔
یمن میں اس سال کا یوم القدس بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک طرف امریکی اور برطانوی جہازوں کی بمباری ہے دوسری طرف یمن کی مسلح افواج کی امریکی بحری بیڑے کے خلاف کاروائیاں ہیں۔ یمن کی مسلح افواج کی کاروائیوں کے نتیجہ میں امریکی بحری بیڑہ یو ایس ایس ٹرومین 1300کلو میٹر دور جا چکا ہے۔ سات اکتوبر سے قبل بحیرہ احمر میں امریکی فوج کا تسلط تھا لیکن آج یمن کی مسلح افواج بحیرہ احمر میں فاتح کی حیثیت سے موجود ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ان کی مرضی کے بغیر اپنا جہاز یہاں سے نہیں گزار سکتی ۔
بہر حال جمعۃ الوداع یوم القدس آ رہاہے اور یمن میں یوم القدس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔یمن کا یوم القدس تاریخی یوم القدس ہے۔یمن نے عہد کیا ہے اے قدس اپنے عہد پر قائم ہیں اور فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے چاہے کچھ بھی قربانی دینا پڑے اسی طرح سید حسن نصر اللہ نے اعلان کیا تھا چاہے ہمیں کچھ بھی قربانی دینا پڑے دیں گے لیکن فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو ں گے.
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان