(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) سنہ 1982کی بات ہے کہ جب عالمی دہشت گرد امریکہ نے اپنی فوجوں کو لبنان کی طرف روانہ کیا۔ امریکہ کا اس زمانہ کا جدید ترین بحری بیڑہ ”نیو جرسی“ لبنان کی طرف روانہ ہوا۔
مقصد یہ تھا کہ لبنان میں لبنانی عوام کی مزاحمت کو اسرائیل کے مقابلہ میں کچل دیا جائے اور اسرائیل کے گریٹر اسرائیل منصوبہ کو یقینی بنایا جائے۔ نیو جرسی نامی بحری بیڑہ لبنان کے سمند رمیں پہنچ چکا تھا۔ لبنان میں مقیم ایک عیسائی صحافی جوزف ابو خلیل نے لبنان کے روزنامہ امل میں ایک شہ سرخی لگائی اور لکھا کہ ”نیو جرسی کی ہیبت کے سامنے مظلوموں کا خدا کہاں ہے؟“۔ اس خبر نے پورے لبنان میں ہلچل مچا دی۔ہر کوئی امریکی ہیبت کے سامنے خوفزدہ تھا۔ سب سوچتے تھے کہ اب لبنان کا مستقبل کیا ہو گا؟
ایسے حالات میں لبنان کی ہی سرزمین پر عماد نامی جی ہاں عماد مغنیہ نامی ایک نوجوان بھی موجو دتھا۔ اس نوجوان نے امریکہ کی اس ہیبت کو توڑنے اور مظلوموں کی مدد کرنے کے لئے امریکہ کی نیول فورسز کے بہترین کمانڈوز جن کو میرین کمانڈوز کہا جاتا تھا، ان کے خلاف ایک مجاہدانہ کاروائی انجام دی او ر اس کاروائی میں 241 امریکن میرین کمانڈوز ہلاک ہوئے اور جل کر رکھ بن گئے۔
اس کاروائی کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی لاشوں تک کا علم نہ ہو سکا۔ اسی طرح درجنوں ایسے تھے جو شدید زخمی ہوئے اور بعد میں ذہنی توازن بھی کھو بیٹھے۔ اس کاروائی کے بعد چند گھنٹوں میں ہی امریکی حکومت نے فیصلہ کیا کہ لبنان کے سمندر سے امریکن بحری بیڑا نیو جرسی واپس بلا لیا جائے اور امریکن فوجیں بھی لبنان کو خالی کر دیں۔
اس عظیم الشان کاروائی کے اگلے ہی روز روزنامہ امل نامی اخبار میں ایک اور شہ سرخی لگی ہوئی تھی جس میں 241 امریکی فوجیوں کے واصل جہنم ہونے کا ذکرتھا اور ساتھ ساتھ اس نوجوان عماد مغنیہ کا یہ کلام تھا کہ ”مظلوموں کا خدا یہاں ہے اور نیو جرسی کی ہیبت کہاں ہے؟“۔
عماد مغنیہ اسلامی مزاحمت کا ایک ایسا فرزند ثابت ہوا کہ جس نے رہتی دنیا کے لئے اپنا نقش چھوڑ دیا ہے۔ آج اس عظیم مجاہد کے نقش قدم پر چلنے والے ہزاروں عمادم مغیہ موجود ہیں جو بہترین تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ شہادت کے جذبہ سے لبریز ہیں۔
عماد مغنیہ کو سنہ2008ء میں عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے ایک بزدلانہ کاروائی میں میزائل حملوں میں شہید کر دیا تھا۔ انہوں 12فروری کو شہید کیا گیا تھا۔
شہید عماد مغنیہ سنہ2006ء میں لبنان میں ہونے والے اسرائیل کے ساتھ 33روزہ جنگ میں اہم ترین کمانڈر تھے جو پوری جنگ کو کنٹرول کر رہے تھے۔ آپ کی ہی بہترین حکمت عملی اور فداکاری کے باعث حزب اللہ لبنان نے انتہائی مشکل ترین وقت میں اور کم ترین وسائل میں امریکہ اور اسرائیل جیسی دہشت گرد طاقتوں کو شکست دی تھی۔
اس جنگ کی شکست امریکہ اور اسرائیل کبھی بھی فراموش نہیں کر پائے لہذا اس شکست کا انتقام بزدلانہ انداز میں شہید عماد مغنیہ کے قتل سے لینا چاہتے تھے لیکن شہید کی شہادت کے بعد دنیا کے سامنے وہ راز بھی افشاں ہوئے جو دنیا پہلے نہیں جانتی تھی۔
پہلے امریکہ کو صرف ایک عماد مغنیہ کا سامنا تھا لیکن ان کی شہادت اور بہتے ہوئے پاکیزہ لہو سے ہزاروں عماد مغنیہ پیدا ہوئے جن کا مقابلہ کرنا اب امریکہ سمیت غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے بس کی بات نہیں ہے۔
شہید عماد مغنیہ انتہائی نوجوانی کے زمانہ میں ہی لبنان سے فلسطین کی سرحد عبور کے غاصب صیہونی فوجیوں کے خلاف کاروائیوں میں مشغول رہتے تھے۔ کئی مرتبہ امریکی جریدوں میں یہ خبر نشر ہوئی کہ ایک پرچھائی ہے جو یاسر عرفات کے دائیں اور بائیں نظر آتی ہے لیکن نہیں معلوم یہ کون ہے؟ بعد ازں دنیا کو معلوم ہوا کہ یہ عماد مغنیہ تھے جو مقبوضہ فلسطین کے اندر تک جا کر غاصب صیہونی دشمن کے خلاف مجاہدانہ کاروائیوں میں مصروف رہتے تھے۔
آج پوری دنیا طوفان الاقصیٰ آپریشن میں دیکھ رہی ہے کہ غزہ کے زیر زمین نہ سمجھ میں آنے والی پانچ سو کلو میٹر طول و عرض رکھنے والی سرنگوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے جس کو دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی رکھنے والی امریکی و صیہونی حکومتیں بھی دریافت کرنے میں ناکام ہیں۔ ان تمام سرنگوں کو بنانے اور مدد کرنے میں ماسٹر مائنڈ کوئی اور نہیں بلکہ شہید عماد مغنیہ ہیں۔
شہید عماد مغنیہ نے اپنی پوری زندگی مظلوموں کی مدد میں گزار دی۔ آپ کے دو بھائی جہاد اور فواد بھی القدس کی آزادی کے راستے میں جام شہادت نوش کر گئے۔ آپ کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد ہی آپ کا جواں فرنزد جہاد مغنیہ بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہادت کو پہنچ گیا۔
شہید عماد مغنیہ کی فلسطین کاز کے ساتھ لگن اور مظلوم فلسطینی عوام کے لئے کی گئی انتھک جدوجہد کے عوض فلسطین کے لوگ ہمیشہ آپ کو ”حاج فلسطین“ کہہ کر پکارتے تھے۔ جبکہ لبنان میں شہید عماد مغنیہ کو ”حاج رضوان“ کہا جا تا ہے۔ آج شہید عماد مغنیہ کو ”عماد المقاومۃ“ کہا جا رہاہے۔ یہ سب کچھ ان کی اس جدوجہد اور عظیم قربانی کا ثمر ہے کہ جو انہوں نے القدس کی آزادی کے راستے میں پیش کی ہے۔
آج حاج فلسطین ظاہری طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں ہے۔ لیکن حاج فلسطین کی مقدس روح اور ان کے روحانی فرزند موجود ہیں جنہوں نے امریکہ کو ایک مرتبہ پھر 1982کی یاد تازہ کروا دی ہے۔ آج غزہ، شام، لبنان، عراق اور یمن میں سب کے سب عماد بن چکے ہیں۔ ایک رضوان فورس تیار ہو چکی ہے جو جدید اسلحہ سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ اور شہادت کے جذبہ سے سرشار ہے۔ آج غاصب صیہونی حکومت کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شہید عماد مغنیہ شہادت کے بعد ہمارے لئے زیادہ خطر ناک ثابت ہو ا ہے۔
بہر حال حاج فلسطین کا مشن جاری رہے گا اور عنقریب القدس شریف پر آزادی کا پرچم لہرایا جائے گا اور یقینی طور پر حاج فلسطین جیسے عظیم شہداء کے خون کی برکت سے ہی ممکن ہو گا۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان