(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی میں جارحیت اور قبضوں کے خلاف بنیادی اصول مرتب ہے، اس عنوان سے حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے مرتب اصولوں اور فکر کا از سر نو پرچار کرتے ہوئے یمن کےمعاملے پر ظالم کوبرملا ظالم اور مظلوم کو مظلوم اعلان کرتے ہوئے اپنی نظریاتی بنیادوں کا تحفظ یقینی بنائے۔
لفظ جارحیت کی تعریف کرتے ہوئے مفکرین اور ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا عمل جو کسی کے خلاف اس طرح انجام دیا جائے کہ تشدد، ظلم، جبر اور اس سے ملتی جلتی اصطلاحات مطابقت رکھتی ہوں جارحیت کہلاتا ہے۔علم سیاسیات میں جارحیت جنگوں کے زمانہ میں نظر آتی ہے، اسی طرح علاقائی مسائل میں بھی جارحیت کا عنصر ایک ریاست کا دوسری ریاست کے خلاف نظرا ٓتا ہے، جنگی جرائم کی اصطلاح بھی جارحیت کے نتیجہ میں جنم لیتی ہے، انسانیت سوز مظالم اور جبر بھی جارحیت کے نتیجہ میں جنم لیتا ہے۔غرض اس طرح کی درجنوں مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں جو جارحیت کے واضح مطالب کو آشکار کرتی ہیں اور کسی ذی شعور کو یہ سمجھنے میں دقت پیش نہیں رہتی کہ آخر جارحیت کیا ہے۔
پاکستان ایک ایسی مملکت خداداد ہے کہ جس کے بانیان نے قیام پاکستان سے قبل ہی اس ریاست کے لئے کچھ اصول اور نظریات سمیت فکری بنیادوں کو استور کیا تھا جس کی بنیاد پر قیام پاکستان سے قبل خارجہ امور میں اور قیام پاکستان کے بعد باقاعدہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے عنوان سے بنیادی اصول مرتب کئے گئے جس میں دیگر ریاستوں کی طرح بنیاد ترین اصول قومی سلامتی کو رکھا گیا۔لیکن ساتھ ساتھ دیگر اصولوں میں ایک اہم ترین اور بنیادی اصول جارحیت کی مذمت اور جارحیت کے خلاف بھی رکھا گیا۔جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے کہ جو کسی بھی قسم کی جارحیت کی حمایت نہیں کرتا ہے۔
ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ بانیان پاکستان خصوصا قائد اعظم محمد علی جناح نے اس زمانے میں فلسطین اور کشمیر کے ساتھ ہونے والی جارحیت کے تناظر میں ہی اس اہم ترین اصول کو ریاست کی خارجہ پالیسی کا اہم عنصر قرار دیا ہوگا۔ یقینا ایسا ہی ہوگا کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پوری زندگی میں ہمیں مظلوموں کی حمایت کا ہی درس ملتا ہے۔کئی ایک مواقع پر آپ نے فلسطین کے حق میں عملی جدوجہد کرتے ہوئے بر صغیر کے مسلمانوں کو واضح راہ کی طرف گامزن کیا۔
قیام پاکستان کے بعد سے ہمیشہ پاکستان کی خارجہ پالیسی انہی بنیادی اصولوں پر قائم رہی ہے اور اسی وجہ سے پاکستان نے ہمیشہ بابائے قوم کی سیرت پر عمل پیرا رہتے ہوئے دنیا میں ہونے والی ہر قسم کی جارحیت کی شدید مذمت کی ہے اور بین الاقوامی فورمز پر بھی ایسی تمام جارحیتوں کی سخت سرکوبی کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کا فلسطین کے ساتھ اسلامی و انسانی رشتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فکری رشتہ یہ اصول ہے جسے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے مرتب کیا ہے، لہذا پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت اس لئے کی ہے کیونکہ اسرائیل فلسطین پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست ہے یعنی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اسی اصول کے تحت یہ بات واضح ہوئی ہے کہ پاکستان اسرائیل کے فلسطین پر قیام کو غاصبانہ تسلط تصور کرتا ہے اور اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اسرائیل جارحیت کے زمرے میں آتا ہے اور گذشتہ ستر سال سے زائد عرصے سے فلسطینی عوام پر ظلم و بربریت کر رہا ہے یعنی جارحیت کا مرتکب ہے۔
اسی طرح ایک او ر اہم ترین مسئلہ کشمیر کا ہے کہ جہاں بھارت کی جارحیت جاری ہے، بھارت نےکشمیر پر قبضہ جما رکھا ہےاورکسی علاقہ پر قبضہ جمانا ، اپنی فوجی قوت اتار کر وہاں کی مقامی آبادی کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانا بھی جارحیت ہےجس کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی بنیادی اصول کے تحت کشمیر کی مکمل حمایت کرتا ہے اور کشمیر کی آزادی کو کشمیری عوام کا بنیادی حق تصور کرتے ہوئے کشمیر میں بھار ت کی افواج کی جانب سےعوام پر ظلم و ستم کو جارحیت اور ناجائز قبضہ تصور کرتے ہوئے اس فعل کو ریاستی دہشت گردی قرار دیتا ہے۔
جی ہاں جس طرح اسرائیل کا فلسطین پر قائم کیا جانے والا وجود ناجائز اور غاصبانہ تسلط ہے اسی طرح کشمیر پر بھارت کا قبضہ بھی ناجائز اور جارحانہ ہےاور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے انہی بنیادی اصولوں کے تحت پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کے معاملہ پر کشمیر ی عوام کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور کر رہاہےساتھ ہی تمام بین الاقوامی فورمز پر پاکستا ن نے کشمیری عوام کی مظلومیت کو اجاگر کرتے ہوئے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی فکر کی ترجمانی کی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسی مملکت ہے کہ جس نے دنیا میں جہاں کہیں بھی جارحیت ہو اس کی سخت مذمت کی ہےاس کے لیے افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے،عراق کے معاملہ میں بھی پاکستا ن نے امریکی جارحیت کی مذمت کی تھی، اسی طرح روہنگیا کے مسلمانوں کے معاملہ میں بھی پاکستان نے مضبوط مؤقف اختیار کیاتھا۔
جب یمن پر سعودی عرب اور امریکی اتحادیوں کی جانب سے جنگ مسلط کی جا رہی تھی اور اس جنگ میں پاکستانی فوجیوں کی شمولیت کا مطالبہ کیا گیا تو اس وقت بھی پاکستان اس جنگ کا حصہ نہیں بنا تھا جس کی بنیادی وجہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا یہی بنیادی اصول تھا جو پاکستان کو سیاسی و اخلاقی طور پر پابند کرتا ہے اور دنیا کی جارح حکومتوں کی فہرست میں شامل نہیں ہونے دیتا۔
اب جب کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اپنے ان بنیادی اصولوں کی بنیاد پر ممتاز ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ دفتر خارجہ اکثر وبیشتر یمن کی دفاعی فورسز کے خلاف بیان جاری کرتا ہے؟ اس عنوان سے اگر ماہرین خارجہ امو ر سے با ت کریں تو وہ کہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کبھی مستقل نہیں ہوتی اور شاید ایسی ہی ملتی جلتی بات ہمارے موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کسی موقع پر کہہ چکے ہیں۔ علم سیاسیات کا ادنی طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہ بات تسلیم ہے کہ قومی سلامتی کی خاطر خارجہ پالسیی میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے لیکن یہ بات تسلیم کرنا انتہائی مشکل ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی چھوڑ دے۔ایسا کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ بانیان پاکستان بالخصوص بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے افکار اور نظریہ پاکستان سے رو گردانی کر لی گئی ہے۔
گذشتہ کچھ عرصہ میں جب سے یمن پر سعودی عرب اور مغربی ممالک کے مشترکہ اتحاد کی جانب سے جنگ مسلط کی گئی ہے دفتر خارجہ نے کبھی بھی یمن میں قتل کئے جانے والے بے گناہ ہزاروں انسانوں کے قاتلوں کی مذمت نہیں کی، مذمت تو دور کی بات ہے کبھی بے گناہ قتل ہونے والوں کے لئے ہمدردی کا اظہار بھی نہیں کیا۔گذشتہ پانچ برس سے یمن پر ایک طرف جنگ مسلط ہے جس کے نتیجہ میں ہزاروں بے گناہ افراد لقمہ اجل بنا دئیے گئے۔ اس ظلم اور جبر کے مقابلہ میں اگر یمن کے پا برہنہ عوام اپنی ناموس اور جان کی حفاظت کے لئے دفاعی کارروائیوں کو انجام دیتے ہیں تو مغربی ممالک کی جانب سے ایسی کوئی مذمت سامنے نہیں آتی بلکہ بد قسمتی سے پاکستان سب سے پہلے یمن کے نہتے عوام کو ایک طرف باغی قرار دیتا ہے اور دوسری طرف ان کی دفاعی کارروائیوں کی مذمت بھی کرتا ہے۔حالانکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول جارحیت کی مخالفت پر مبنی ہے لیکن دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات ہزاروں یمنی عوام کے قتل جو کہ جارحیت کے نتیجہ میں انجام پائے ہیں اس پر خاموش ہے اور اگر یمن کے لوگ اپنا دفاع کریں تو ان کے خلاف بیان جاری کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جو پاکستان کو مسلم امہ میں ممتازبنے رہنے میں رکاوٹ کا باعث ہو گا۔یہ ایسا فعل ہے جو خود پاکستان کے کشمیر پر مضبوط اور مثبت مؤقف کو کمزور اور منفی کر دے گا۔
بہر حال پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی میں جارحیت اور قبضوں کے خلاف بنیادی اصول مرتب ہے اور اسی بنیاد پر ہر پاکستانی کو اپنے پاکستانی ہونے پر بھی فخر حاصل ہے کہ دنیا کی مظلوم اور کمزور اقوام کے لئے پاکستان ایک آواز اٹھا سکتا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصہ سے دفتر خارجہ کی مجبوریوں یا کسی اور وجہ سے جو کچھ یمن کے معاملہ پر خارجہ پالیسی میں سامنے آیا ہے وہ یقینا ہر پاکستانی کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ اس عنوان سے حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے مرتب اصولوں اور فکر کا از سر نو پرچار کرے اور ظالم کوبرملا ظالم اور مظلوم کو مظلوم اعلان کرتے ہوئے اپنی نظریاتی بنیادوں کا تحفظ یقینی بنائے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان