(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) "العربی الجدید” سے بات کرتے ہوئے ایک مصری سفارتی ذریعے نے انکشاف کیا کہ آئندہ چند گھنٹوں کے دوران ایسے مذاکرات کا آغاز ہونے والا ہے جن کا مقصد ایک عبوری جنگ بندی پر اتفاق رائے ہے۔ اس دوران غزہ میں شدید قحط کے شکار شہریوں کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی، ساتھ ہی ایک وسیع تر سیاسی عمل کی راہ ہموار کی جائے گی جس کا مقصد جارحیت کا خاتمہ اور تعمیر نو کا آغاز ہے۔
مصری ذریعے نے انکشاف کیا کہ امریکی نژاد صیہونی فوجی عیدان الیگزینڈر کی رہائی سے قبل ایک خفیہ سفارتی کشیدگی پیدا ہوئی، جس کی وجہ نیتن یاہو کی جانب سے اس عمل کو روکنے کی کوشش تھی۔ نیتن یاہو نے مطالبہ کیا کہ الیگزینڈر کے ساتھ آئیتان ہورن نامی قیدی کو بھی رہا کیا جائے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ وہ دونوں ایک ہی سرنگ میں قید تھے۔ تاہم، حماس نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ یہ رہائی صرف امریکی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے نتائج کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق، نیتن یاہو نے غیر اعلانیہ طور پر فوجی حکام کو ہدایت کی کہ وہ قیدی کی رہائی کے بدلے کیے گئے شرائط، جیسے ڈرون پروازوں کی بندش اور توپ خانے کی بمباری روکنے جیسے اقدامات میں تاخیر کریں، تاکہ امریکی دباؤ کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔ تاہم، القسام بریگیڈز نے سختی سے مطالبہ کیا کہ رہائی سے کم از کم 8 گھنٹے قبل ڈرون پروازیں مکمل طور پر بند کی جائیں — اور یہی شرائط بالآخر تسلیم کی گئیں۔
حماس کی عبوری جنگ بندی پر آمادگی
ادھر، حماس نے بھی ثالثوں اور امریکی حکام کو آگاہ کیا ہے کہ وہ عبوری جنگ بندی کے لیے نئے مذاکرات کے آغاز پر آمادہ ہے، تاہم واضح کیا کہ یہ محض وقتی اقدام ہے، مکمل جنگ بندی، غیر قانونی صیہونی ریاست کا مکمل انخلاء، اور قیدیوں کی رہائی جیسے بڑے امور پر سنجیدہ مذاکرات ناگزیر ہیں۔
حماس کے ایک ذریعے کے مطابق، مختلف مدت کی عبوری جنگ بندیوں پر غور کیا جا رہا ہے — جن میں 40، 60 اور 90 دن کے آپشن شامل ہیں — تاکہ جنگ کا خاتمہ ممکن ہو اور اس بار یہ عمل صرف محدود تبادلوں پر مشتمل نہ ہو، بلکہ مکمل معاہدے کی طرف بڑھ سکے۔ متوقع معاہدے میں دونوں جانب سے قیدیوں کی ایک محدود فہرست کی رہائی بھی شامل ہوگی۔
امریکی کردار اور خطے کے مفادات
حماس کے ذرائع کے مطابق، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ واشنگٹن، جنگ بندی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے سنجیدہ کوشش کرے گا، اور اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ فوری ہونا چاہیے۔ یہ ٹرمپ کا اس بحران میں پہلا براہِ راست کردار ہے۔
سابق مصری سفارتکار ڈاکٹر محمد حجازی نے "العربی الجدید” کو بتایا کہ امریکی رویے کا مستقبل خطے کے لیے فیصلہ کن ہوگا۔ واشنگٹن یا تو عرب ممالک کی بات سنے گا اور مسئلہ فلسطین کے سیاسی حل کی طرف بڑھے گا — یا پھر غیر قانونی صیہونی ریاست کی غیر مشروط حمایت جاری رکھے گا، جو مزید تشدد، بے یقینی اور خطے کے ساتھ ساتھ خود امریکا کے مفادات کو نقصان پہنچائے گا۔