(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) مسئلہ فلسطین ابتداء سے ہی عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک اہم ترین مسئلہ رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین کی دنیائے اسلام میں ایک بنیادی اور اول مسئلہ کی حیثیت ہے۔اسی طرح جدید دنیا میں مسئلہ فلسطین اسلام اور فلسطین کی سرحدوں کو چیرتا ہوا دنیا بھر کے انسانوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
آج اس مسئلہ کو اگر انسانی مسئلہ قرار دیا جائے تو یہ بے جا نہیں ہے۔یورپ اور ایسے ممالک کہ جن کی حکومتوں نے ماضی میں فلسطین پر غاصبانہ صہیونی تسلط کے لئے صہیونیوں کی مدد کی تھی آج انہی علاقوں میں انہی حکومتوں کے نیچے بسنے والے عوام اپنی حکومتوں کے اقدامات پر خوش نہیں ہیں بلکہ وہ فلسطین کے حالات اور واقعات کو دیکھنے کے بعد فلسطین کے ساتھ ہیں۔لہذا کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ فلسطین ایک عالمگیر اور انسانی مسئلہ ہے۔
یوم نکبہ، یہ وہ دن ہے کہ جس دن سنہ1948میں غاصب صہیونیوں نے فلسطین پر ناجائز تسلط قائم کرنے کے بعد فلسطین کے مقامی لوگوں پر بے پناہ انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔اس دن سفاکیت اور بربریت کی ماضی کی تمام داستانوں کو صہیونی دہشت گرد تنظیموں ھاگانہ اور صہیونیوں کی ایجنسی نے اپنے ظلم کی داستانوں کے سامنے روند ڈالا۔لاکھوں مقامی فلسطینیوں کوان کے اپنے وطن فلسطین سے جبری طور پر نکال دیا گیا اور ان کو پڑوسی ممالک کی سرحدوں یعنی لبنان، شام، اردن اور مصر کی طرف دھکیل دیا گیا۔
آج بھی گوگل جیسے سافٹ وئیر پر محتاط رہنے کے باوجود بھی گوگل آٹھ لاکھ فلسطینیوں کی تعداد لکھنے پر مجبور ہے کہ جن کو غاصب صہیونی دہشت گردوں نے ظلم اور بربریت کے ذریعہ فلسطین سے نکال باہر کیا۔اسی طرح پینے کے پانی کی لائنوں میں زہریلا مواد ملانا اور خواتین کی عصمت دری سمیت معصوم بچوں کو بھیانک انداز میں قتل کرنے کے سیکڑوں نہیں ہزاروں واقعات رونما ہوئے۔فلسطینی عوام پندرہ مئی سنہ1948ء کے دن کو یوم نکبہ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔نکبہ کے معنی ہیں بہت بڑی اور بھیانک تباہی۔
یقینا فلسطینیوں کے لئے اس سے زیادہ بھیانک اور بدترین تباہی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک قوم کو اس کے گھر سے ہی بے دخل کر دیا گیا۔ان کے وطن کے اندر گھس کر ایک ناجائز ریاست کی تشکیل دی گئی۔گھروں، کھیتوں کھلیانوں سمیت باغات اور زندگی سے متعلق ہر چیز پر صہیونیوں نے اپنا غیر قانونی قبضہ جما لیا۔دن دیہاڑے مالکان وطن کو تارکین وطن بنا دیا گیا۔یہ درد یقینا وہی سمجھ اور محسوس کر سکتا ہے جس سے اس کا وطن اور گھر چھین لیا جائے۔یہ سب مظلوم ملت فلسطین کے ساتھ ہوا۔
ٓآج بھی 75سال گزرنے کے بعد فلسطینیوں نے اپنے گھر اور وطن واپس آنے کی امید کو ترک نہیں کیا ہے۔حالانکہ لبنان، شام، اردن اور مصر سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن آج بھی لبنان و شام کے فلسطینی مہاجر کیمپوں میں جائیں تو فلسطینی ماؤں کے پاس اپنے گھروں کی چابیاں موجود ہیں۔وہ اس امید کے ساتھ ان چابیوں کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں کہ عنقریب وہ دن آئے کہ یہ سب کے سب فلسطینی اپنی تیسری نسل کے ساتھ اپنے وطن اور اپنے گھر یعنی فلسطین جائیں۔
آج بھی ہمارے فلسطینی بھائی دنیا کے سامنے اپنے وطن واپس جانے کے لئے جس نعرے کو بلند کر رہے ہیں اس میں یہی کہا جارہاہے کہ ”We Shall Return“ یعنی ہم واپس آئیں گے۔
فلسطینیوں کا اپنے وطن میں واپس آنا ان کا بنیادی حق ہے۔اس حق کو اقوام متحدہ سمیت دنیا کا کوئی بھی ادارہ نظر انداز نہیں کر سکتا۔کیونکہ اگر فلسطینیوں کے حق واپسی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا کی دیگر اقوام کے لئے کلین چٹ ہو گی کہ جو جہاں چاہے گھس بیٹھ کرے اور اپنی من پسند ریاست کو وجود میں لانے کے بعد مقامی آبادی کو نکال پھینکے۔لہذا غاصب اسرائیل کا پہلا اقدام جس کی بنیاد پر صہیونی ناجائز ریاست قائم ہے قابل قبول نہیں ہے اور اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ فلسطینی عوام اپنے حق واپسی فلسطین سے دستبردار نہیں ہو رہے ہیں اور نہ کبھی ہو ں گے۔
فلسطینی عوام حق واپسی کی تحریک میں سرگرم عمل ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے فلسطینیوں کی اس آواز کہ جس میں ”ہم واپس آئیں گے“ کی بات کی جا رہی ہے، دنیا بھر کی اقوام کی آواز شامل ہونی چاہئیے۔
عالمی سیاسی منظر نامہ پر تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کے ذریعہ بے پناہ کوشش کی جا تی رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسئلہ فلسطین کو سرد خانہ کی نظر کیا جائے۔یا یہ کہ دنیا میں اس معاملہ پر خاموشی اختیار کر لی جائے۔غاصب اسرائیل کی سرپرست حکومتوں میں امریکہ،برطانیہ اور یورپ کی حکومتیں سرفہرست ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا جائے۔فلسطینیوں کے حق واپسی کی کوئی بات ہی نہ ہو۔لیکن فلسطینیوں نے ہم واپس آئیں گا کا اصولہ فیصلہ کر رکھا ہے۔
آج فلسطین کے چارو ں اطراف میں فلسطینی عوام ہم واپس آئیں گے کی بھرپور تحریک کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں کہ وطن واپسی کا حق حاصل کریں اور اپنے وطن لوٹ جائیں۔یہی حقیقت میں مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل بھی ہے۔یہ حقیقت میں غاصب صہیونی ریاست کی موت اور نابودی کی کلید ہے۔اگر فلسطین کے مقامی باشندے فلسطین آ جاتے ہیں تو پھر باہر سے لا کر بسائے گئے صہیونیوں کی غیر قانونی حیثیت مزید ختم ہو جائے گی اور یقینی طور پر صہیونیوں کو اپنے آبائی علاقوں میں کہ جہاں سے وہ ہجرت کر کے فلسطین پر قابض ہونے آئے تھے واپس جانا ہو گا۔
پاکستان ہمیشہ سے فلسطین کاز کے ساتھ رہا ہے۔پاکستان کا فلسطین کاز کے ساتھ ای تاریخی رشتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی و انسانی رشتہ بھی ہے۔پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی ہے۔پاکستان کے عوام بھی فلسطینیوں کے حق میں ہیں۔حالیہ زمانہ میں کہ جب غاصب صیہونی حکومت زوال کی طرف ہے تو پاکستان میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تین چار سال سے اسرائیل کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس مقصد کے لئے امریکی سفارتخانوں کی جانب سے ڈالروں کی بھرمار بھی کی جا رہی ہے۔بد بختی یہ ہے کہ میر جعفر اور میر صادق ہر قوم میں موجود ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایک اور یوم نکبہ آچکا ہے۔فلسطینی مایوس نہیں ہیں۔فلسطینیوں کی جد وجہد روزانہ کی بنیادپر ترقی کی طرف گامزن ہے۔اس ترقی مین شہداء کا پاک لہو اور قربانیاں شامل ہیں۔دنیا بھر کے انسانوں کے جذبات اور خلوص سمیت فلسطین کاز سے ان کی محبت شامل ہے۔
اگر چہ دنیا کی حکومتوں کے لئے ترجیح کچھ اور معاملات ہیں لیکن دنیا کے عوام فلسطین کاز کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑے ہیں۔غاصب صہیونی ریاست اسرائیل پندرہ مئی یوم نکبہ کے دن یوم آزادی اسرائیل مناتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ غاصب اسرائیل کس سے آزاد ہو اہے؟ یعنی یہ ایک اور حماقت اور بے بنیادی کی دلیل ہے کہ اسرائیل کا وجود ایک ناجائز اور غاصب وجود ہے۔امید ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک اسی طرح آگے بڑھتی رہے گی اور عنقریب دنیا بھر میں موجود جبری جلا وطن تارکین فلسطین اپنے وطن اور گھر فلسطین کو لوٹ کر آئیں گے۔
فلسطین اور خطے کے تبدیل ہونے والے حالات بھی اسی سمت اشارہ دے رہے ہیں کہ فلسطینیوں کا خواب اور نعرہ کہ ”ہم واپس آئیں گے“ عنقریب سچ ہونے والا ہے۔یقینا یہ وعدہ الہی ہے کہ فلسطین آزاد ہو کر رہے گا اور اسرائیل نابود ہو گا۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان