(روزنامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے ان مسلم ممالک کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں شامل تصویر میں موجود خاتون کی حالیہ صورت کو غور سے دیکھیں کیا یہ مظاہرے میں موجود ہیں۔
لبنان کے شہر بیروت میں قائم فلسطینی مہاجر کیمپ صابرہ اور شتیلا میں معصو م، بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کرنے کا منصوبہ ساز صہیونی ریاست اسرائیل کا سابق وزیر اعظم اور اسرائیل میں کئی اہم سیاسی عہدوں پرفائز رہ کر فلسطینی مسلمانوں کے خون سےاپنی نفرت کی آگ بجھانے والا ایریل شیرون 1928 میں برطانوی زیرِ اختیار فلسطین میں پیدا ہوا اور 49-1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد یہودی فوجی تنظیم ’ہاگاناہ‘ میں شامل ہوکر اس نےاپنی شیطان صفت فطرت کے مطابق کئی مسلمانوں کاناحق خون بہایا،عرب مخالف کارروائیوں میںپیش پیش رہا جس میں 1953 میں قبیا نامی گاؤں میں عربوں کے پچاس گھروں کو بموں سے اڑا دیا اور نتیجے میں 69 بے گناہ مسلمانوں کو ہمیشہ کی نیند سلادیا۔
مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر قبضے کے دوران بد ترین قتل وغارت گری میں ایریل شیرون صہیونی سپاہیوں کا نگران بن کر قہر برساتا رہا، کئی مصری فوجی بھی اس کے ہاتھوں غزہ میں موت کی وادیوں میں جاسوئے ،تاہم لبنان کے شہر بیروت میں اس سفاک انسان نما بھیڑیے نے ایک تباہ کن قتل عام کا منصوبہ بنایا جسے جب تک دنیا قائم ہے صہیونیت کی بدترین مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
اسرائیل کا قصائی اورصہیونیت کی بھیانک تصویر فلسطینیوں کو قتل کرنے والا جنگی مجرم جس نے فلسطینی صدر یاسر عافات کے قتل سے بھی اپنے ہاتھ رنگے، ایریل شیرون نےلبنان سےاسرائیل مخالف مزاحمتی حملوں کے جواب میں بیروت پر حملہ کیا جس میں صہیونی ریاست کےوزیر اعظم کی بھی مشاورت کو خاطر میں نہ لایا تاہم سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات کی جماعت پی ایل او کو بیروت سے بے دخل کردیا گیا جس کا صہیونی شاطر سیاست دان نے بھر پور فائدہ اٹھایا اورلبنان میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ شتیلا اور صابرہ پر وہ تباہ کن قتل عال کیا گیا جو آج 32 سال گزر جانے کے بعد بھی ہولناکی کا تازہ واقعہ لگتاہے۔
بظاہراس میں ملوث لبنان کی عیسائی ملیشیا طاقتیں ہزاروں نہتے فلسطینیوں کی قاتل دکھائی دیتی ہیں تاہم خود اسرائیل ہی کے ایک تحقیقاتی ٹرائیبیونل نے اس انسانیت کے قاتل کو مسلمان فلسطینیوں سےاپنے مذہبی جنون کو تسکین پہنچانے کے لیے ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے 1983 کی ایک شام اسےوزیر دفاع کے عہدے سے بر طرف کر دیا،خیر یہ تو کوئی اہم بات اس لیے بھی نہیں کیونکہ اس عہدے کی برطرفی کے بعد ایریل شیرون آتی جاتی صہیونی حکومتوں میں بڑے منصبوں پر فائز ہوتا رہا بلکہ اپنی موت تک اپنی ایک سیاسی پارٹی بنانے میں بھی کامیاب رہا البتہ آخری وقت میں ایک ہسپتال کے کمرے میں8 سالوں تک خاموش پڑا رہا اور ایک دن اس خالق حقیقی سے جا ملا جہا ں ہر مظلوم کے ساتھ کی ہوئی زیادتیوں کی تفصیلی جواب طلبی ہوگی۔
اس مضمون کے ساتھ دی گئی اس بوڑھی فلسطینی پناہ گزین کیمپوں صابرہ شتیلا میں سے ایک سے تعلق رکھنے والی خاتون کی تصویر کو غور سے دیکھیں جس کی آنکھوں میں رچا بسا سکوت شاید 32 سال پرانا ہوگاجس نے آج شیرون کے ڈھائے گئے مظالم پر قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے وہ اس خاتون کی آنکھوں میں رچا سکوت اور خاموشی ہے جو اقوام عالم کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے اور اپنے پیاروں کو کھو دینے کے بعد بے حس دنیامیں کسی سے بھی کسی قسم کے انصاف کی ذرہ برابر بھی امید کی رمق نہیں ملتی۔
یہ خاتون32 برس پہلے فلسطینی مہاجر کیمپ کے قتل عام میں زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہے اور بس خاموش آنکھوں سے آج 32 سال بعد اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان امن معاہدے کے نام پر دنیا کے عجیب رنگ دیکھ رہی ہےکسی نے شاید اسے لاکر یہاں کھڑا کردیا ہے کیونکہ یہ اسرائیل، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں یوں تصویر لیے کھڑی ہے جیسے یہاں موجود ہی نہیں۔
اس بزرگ خاتون کے ہاتھ میں تھمی یہ تصویر 16 ستمبر 1982 کے قتل عام کی ہے جس میں یہ خاتون اپنے تین بیٹوں اور شوہر کی لاشوں کے پاس کھڑی ہے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے ان مسلم ممالک کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں شامل تصویر میں موجود خاتون کی حالیہ صورت کو غور سے دیکھیں کیا یہ مظاہرے میں موجود ہیں۔
تحریر: عائشہ کرن