(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) شدت پسند وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت نے عدالتی اصلاحات کے نام پر صہیونی ریاست میں ایسی قانون سازی کی ہے، جو ملکی وزیر اعظم کی برطرفی کو ناممکن بنا دے گی۔ دوسری جانب ان قانونی اصلاحات کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے جاری ہیں۔
غیر قانونی صہیونی ریاست اسرائیل کی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے جمعرات کے روز حکومت کی طرف سے تجویز کردہ متنازعہ عدالتی اصلاحات پر علمدرآمد کے لیے متعدد قوانین میں سے پہلا قانون منظور کر لیا۔ کنیسٹ کی طرف سے یہ قانون سازی ایک ایسے دن کی گئی جب مظاہرین کی جانب سے ان تبدیلیوں کے خلاف غیر معمولی مظاہرے کیے جاتے رہے۔ ان مظاہروں کا مقصد اس بارے میں خطرے کی گھنٹی بجانا تھا کہ ملک ‘مطلق العنانی‘ کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے حکومتی اتحاد نے اس قانون سازی کی منظوری دی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون سازی نیتن یاہو کو نااہلی سے بچانے کے لیےکی گئی ہے اور یہ بدعنوانی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور عدالتی اصلاحات کے بارے میں اسرائیلی عوام میں پائی جانے والی خلیج کو مزید گہرا کرتی ہے۔
ان قانونی ترامیم نے قوم کو دو حصوں میں منقسم کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسرائیل سے اس کے جمہوری نظریات کو چھیننے والی پالیسیاں ہیں اور کچھ لوگوں کے خیال میں ملک کو ایک آزاد خیال عدلیہ نے زیر کر لیا ہے۔ عدالتی اصلاحات کے اس حکومتی منصوبے نے تقریباً پچھتر سال پرانی اسرائیلی ریاست کو اس کے بدترین اندرونی بحرانوں میں سے ایک سے دوچار کر دیا ہے۔