(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) مقررین نے بعض عرب ممالک کے قابض صیہونی ریاست کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات پر سخت تنقید کرتےہوئے کہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا در حقیقت مسلم امہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی امریکی وصہیونی سازش ہے۔
فلسطین فاؤنڈیشن بلوچستان کے زیراہتمام کوئٹہ پریس کلب میں گول میز کانفرنس منعقدکی گئی جس میں علامہ مقصود علی ڈومکی ، نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر رحمت صالح ایڈوکیٹ بی این پی مینگل کے مرکزی رہنما موسیٰ بلوچ غلام نبی مری عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کمانڈر خداٸ داد امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی ممتاز دانشور و کالم نگار امان اللہ شادیزٸ سابق سینٹر قوم پرست رہنما میر مہیم خان بلوچ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما علامہ سید ہاشم موسوی چرچ آف پاکستان کے مسیحی رہنما پاسٹر اسلم برکت بی ایس او کے رہنما ملک بابل بلوچ ممتاز عالم دین ڈاکٹر عطا الرحمن علامہ ولایت حسین جعفری ایڈوکیٹ عبدالھادی کاکڑ و دیگر نے خطاب کیا۔
گول میز کانفرنس سے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رہنماؤں کاکہنا تھا کہ عالم انسانیت کے سب سے بڑے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے غفلت برتی جا رہی ہے،مسئلہ فلسطین تاریخ کے سنگین دور سے گذر رہا ہے۔ دنیا میں پھیلی کورونا وبا کے باعث جہاں کئی اور مسائل نے جنم لیا ہے وہاں مسئلہ فلسطین کو بھی پس پشت ڈال دینے کی ہر ممکنہ کوشش کی جا رہی ہےاور پہلے کی نسبت آج فلسطین کا زکے خلاف اندرونی بیرونی دشمن سرگرم ہو چکے ہیں، امریکہ اسرائیل، ہندوستان اور ان کے دوست پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں،کشمیر میں مظلوم عوام انصاف کی راہ تک رہے ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کے عوام بانیان پاکستان کے نظریہ اور اصولوں پر کاربند ہیں اور اسرائیل جیسی جعلی ریاست کو تسلیم تو دور دوستانہ تعلقات کو بھی مسترد کر چکے ہیں اور وزیر اعظم پاکستان کا اس عنوان سے موقف یقینا لائق تحسین ہے لیکن اس معاملہ پر مزید استقامت اور استحکام کی ضرورت ابھی بھی باقی ہے۔
مقررین نے بعض عرب ممالک کے قابض صیہونی ریاست کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات پر سخت تنقید کرتےہوئے کہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا در حقیقت مسلم امہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی امریکی وصہیونی سازش ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی عرب یا دیگر حکمرانوں کی اسرائیل دوستانہ پالیسی کا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہئیے، پاکستان ایک خود مختار اور ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے لہذا پاکستان کی پالیسی وہی ہو گی جو قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی ہے، ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والوں کو مسلم امہ کا خائن سمجھتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کا حل مسلم امہ کے اتحاد ہی سے ممکن ہے تاہم جو ممالک اور حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں ہم ان سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل سے فی الفور تعلقات منقطع کریں اور مسلم امہ کے جذبات کو مجروح ہونے سے بچالیں اور ہم حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں فلسطین کاز اور کشمیر کاز کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے عناصر کی بیخ کنی کے لئے سخت اقدامات کئے جائیں۔
مقررین نے عوا م سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منائیں اور پاکستان بھر میں یوم القدس کے اجتماعات میں شریک ہو کر مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کریں۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان کو بھی چاہئیے کہ یوم القدس کے موقع پر سرکاری سطح پر تقریبات منعقد کی جائیں اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں کے تحت فلسطین و کشمیر کے عوام کی حمایت جاری رکھی جائے۔