(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) اقوام متحدہ نے غزہ میں جاری غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے محاصرے اور امداد کی مسلسل بندش کو انسانی بحران کی بدترین شکل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 18 ماہ سے جاری جنگ نے 22 لاکھ فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دو ماہ سے امداد کی مکمل بندش اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے وہاں کے شہریوں کو بدترین حالات سے دوچار کر دیا ہے، جہاں اب ان کے لیے خوراک، پانی، ایندھن اور دیگر ضروریات زندگی دستیاب نہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے گرم کھانوں کے مراکز میں آخری خوراک کی فراہمی کی جا چکی ہے، جو چند دنوں میں مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ ان کھانوں کے کچن غزہ کی نصف آبادی کو انتہائی محدود مقدار میں خوراک فراہم کر رہے تھے، جو روزمرہ کی غذائی ضروریات کا صرف 25 فیصد پورا کرتے تھے، لیکن یہی ان کے لیے زندگی کا واحد سہارا بن چکے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے صورتحال کو مزید سنگین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر شہری بنیادی ڈھانچے پر حملے کیے، جن میں پانی کے ٹرک، سیوریج مشینیں، اور ملبہ ہٹانے والی مشینری تباہ کی گئی۔ ان حملوں سے امدادی سرگرمیوں میں شدید رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے، جس کا اثر زخمیوں کی تلاش، صاف پانی کی فراہمی اور سیوریج نظام کی بحالی پر بھی پڑا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ میں ہلاک ہونے والوں میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں، جبکہ متاثرہ آبادی کا نصف حصہ خواتین اور لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ نے شہری اشیاء کو نشانہ بنانے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے فوری طور پر امدادی راستے کھولنے اور انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔