آج بدھ کی صبح، غزہ نے جنگ کے آغاز سے اب تک کی ایک اور انتہائی خونریز اور خوفناک رات کا سامنا کیا، جب غیر قانونی صیہونی ریاست کے جنگی طیاروں نے شمالی اور جنوبی غزہ کے مختلف علاقوں پر شدید بمباری کی، جس کے نتیجے میں کم از کم 60 فلسطینی شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ اطلاع فلسطینی سرکاری خبر رساں ایجنسی "وفا” نے دی۔
ادھر، غزہ میں جنگ بندی کی مذاکراتی کوششیں ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں، جہاں ایک مختصر جنگ بندی پر اتفاق کی توقع ہے، جس کے دوران پیچیدہ امور جیسے مکمل انخلاء، قیدیوں کی رہائی اور مزاحمتی قوتوں کے اسلحے سے متعلق مذاکرات کو جاری رکھا جائے گا۔ نیتن یاہو کے منگل کے روز اس بیان نے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست ایک عارضی جنگ بندی قبول کر سکتی ہے، بشرطیکہ "مشن کو بعد میں مکمل کیا جائے”، اس سمت میں ایک ممکنہ پیش رفت کی امید پیدا کی ہے۔
مصری ذرائع کے مطابق، آئندہ چند گھنٹوں میں ایسے مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں جن کا مقصد ایک عبوری جنگ بندی کا نفاذ ہے، جس کے دوران فوری انسانی امداد غزہ میں داخل کی جا سکے گی، جہاں لوگ شدید قحط اور بھوک کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وسیع تر مذاکرات کے لیے ماحول سازگار بنایا جائے گا، تاکہ حملے کا خاتمہ اور تعمیر نو کا آغاز ممکن ہو سکے۔
عبرانی اخبار "یدیعوت آحرونوت” کے مطابق، منگل کو غیر قانونی صیہونی ریاست کا مذاکراتی وفد دوحہ پہنچ چکا ہے، جو نیتن یاہو کی جانب سے پیر کے روز قطر روانہ کرنے کی ہدایت پر مبنی ہے، تاکہ "صرف آگ کے درمیان” مذاکرات کیے جا سکیں۔ اخبار کے مطابق، وفد کم از کم جمعرات تک دوحہ میں موجود رہے گا، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاقائی دورے کے دوران ہو رہا ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے منگل کو ریاض میں ایک خطاب کے دوران کہا کہ غزہ کے شہریوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے "اس کی مثال نہیں ملتی”۔ انہوں نے کہا کہ وہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور وعدہ کیا کہ "غزہ سے مزید (صیہونی) یرغمالیوں کو واپس لایا جائے گا”۔
ادھر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی منگل کے روز نیتن یاہو کی حکومت کی غزہ میں پالیسی کو "ناقابل قبول اور شرمناک” قرار دیا، تاہم انہوں نے اس قتل عام کو "نسل کشی” کہنے سے گریز کیا، یہ مؤقف اپناتے ہوئے کہ اس طرح کے الفاظ کا فیصلہ "مورخین کا کام ہے، صدرِ مملکت کا نہیں”۔ میکرون نے یہ بھی کہا کہ "یہ انسانی بحران 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے سب سے سنگین ہے”۔
غزہ میں انسانی المیے کے پس منظر میں، بین الاقوامی تنظیم "ڈاکٹرز آف دی ورلڈ” نے منگل کو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ بھوک کو "جنگی ہتھیار” کے طور پر استعمال کر رہی ہے، اور خبردار کیا کہ مسلسل ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ میں شدید غذائی قلت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ واضح رہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست نے 2 مارچ سے غزہ میں انسانی امداد کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے، جو 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے دوبارہ شروع ہونے سے چند دن پہلے لگائی گئی تھی۔