روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کے وزیر خزانہ بزلئیل سموٹریچ کی جانب سے مغربی کنارے میں 19 نئی صہیونی بستیوں کو قانونی حیثیت دینے کا اعلان الحاق اور یہودیت مسلط کرنے کے منصوبے میں ایک نہایت خطرناک پیش رفت ہے جسے قابض اسرائیل کی حکومت عملی جامہ پہنا رہی ہے۔
حماس نے اپنے پریس بیان میں کہا کہ یہ اعلان قابض اسرائیلی حکومت کی حقیقی نوآبادیاتی سوچ کو بے نقاب کرتا ہے جو فلسطینی زمین کو ایک مال غنیمت سمجھتی ہے اور تیز رفتار فیصلوں کے ذریعے ایسی استعماری حقیقتیں مسلط کرنا چاہتی ہے جو پورے مغربی کنارے پر مکمل قبضے کی راہ ہموار کریں۔
حماس نے واضح کیا کہ یہ نیا فیصلہ فلسطینی اراضی کی منظم چوری کے طویل سلسلے کا تسلسل ہے جس میں نئی بستیوں کی تعمیر اور موجودہ صہیونی چوکیوں کی توسیع شامل ہے۔ یہ اقدامات بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں جو آبادکاری کو ممنوع قرار دیتی ہیں۔
حماس نے نشاندہی کی کہ یہ مسلسل صہیونی توسیع فلسطینی جغرافیہ کو از سر نو تشکیل دینے شہر اور دیہات کو ایک دوسرے سے کاٹنے اور ایسی فضا پیدا کرنے کے لیے ہے جو فلسطینیوں کو خاموش جبری بے دخلی کی طرف دھکیل دے۔ تاہم تحریک نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ سازشیں فلسطینی عوام کے عزم کو توڑنے اور انہیں اپنی زمین اور حقوق سے دستبردار کرانے میں ناکام رہیں گی۔
اسی تناظر میں حماس نے عالمی برادری اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بے لگام نوآبادیاتی طرز عمل پر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور بستیوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں نیز قابض اسرائیل کے رہنماؤں کو فلسطینی زمین اور مقدسات کے خلاف پالیسیوں پر جواب دہ ٹھہرایا جائے۔
حماس کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب قابض اسرائیل کی وزارتی سلامتی کابینہ نے باضابطہ طور پر مغربی کنارے میں 19 صہیونی بستیوں کے قیام اور انہیں قانونی حیثیت دینے کی منظوری دی۔
قابض اسرائیلی چینل 14 کے مطابق بزلئیل سموٹریچ نے جمعرات کی شام کابینہ کے ارکان کے سامنے اپنا منصوبہ پیش کیا جس میں مکمل طور پر نئی بستیوں کے ساتھ ساتھ بعض پہلے سے قائم چوکیوں کو قانونی ڈھانچے میں لانا بھی شامل ہے۔ ان میں گانیم اور کادیم کی بستیاں بھی شامل ہیں جنہیں سنہ 2005ء میں غزہ کی بستیوں کے انہدام کے ساتھ خالی کیا گیا تھا۔