(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) لبنان اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے مابین سمندر سے گیس نکالنے کا معاملہ ایک طویل مدت سے چلا آرہا ہے۔ لبنان کی سمندری حدود میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے ٹھیک اسی طرح سے غاصبانہ تسلط قائم کر رکھا ہے جس طرح سنہ1948ء میں فلسطین پر ناجائز صہیونی ریاست قائم کر کے کیا تھا اور بعد ازاں جنگوں اور جارحیت میں مصر، اردن، لبنان اور شام کے علاقوں پر غاصبانہ تسلط قائم کیا تھا۔
لبنان ایک ایسا ملک ہے جس نے سنہ1978ء سے صہیونی غاصبانہ تسلط کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور سنہ 2000ء میں پہلی مرتبہ لبنان کی سرزمین پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی ناک زمین پر رگڑ دی گئی اور اسرائیل لبنان سے شکست خوردہ فرار کر گیا۔لبنان اس طرح حقیقی طور پر 25مئی سنہ2000ء کو آزاد ہوا اور آج بھی لبنانی عوام مئی کی اس تاریخ کو آزادی کا جشن منا کر اسرائیل کی شکست پر لبنان کی فتح کو یاد کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
امریکی صدر جو بائیڈن کی صہیونی وفاداری
لبنان اور مقبوضہ فلسطین کی جانب سمندری حدود860اسکوائر کلو میٹر پر محیط ہے اور اس میں بلاک نمبر 9کہ جہاں گیس کے ذخائر موجود ہیں اور ان گیس کے ذخائر کو غاصب صہیونی حکومت مسلسل چوری کر رہی ہے اور اسرائیل اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔حالانکہ تمام تر بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ یہ سمندری حدود اور گیس کے ذخائر لبنان کے ہیں ان سے لبنان اور لبنانی عوام کو مستفید ہونا چاہئیے لیکن صہیونی ریاست اسرائیل کا غاصبانہ تسلط مسلسل برقرار ہونے کے ساتھ ساتھ گیس کے ذخائر پر قابض ہے۔
لبنان کی سیاسی اور مزاحمتی قوت حزب اللہ نے عالمی سطح پر لبنان کے اس معاملہ کو اجاگر کرتے ہوئے عالمی برادری کو کہا ہے کہ سمندر میں موجود گیس اور دیگر ذخائر پر صرف اور صرف لبنانی عوام کا حق ہے اور اس معاملہ پر لبنان کے عوام، حکومت اور مزاحمت خاموش نہیں رہے گی۔ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو بھی وارننگ دی تھی کہ وہ لبنان کی سمندری حدود میں مداخلت اور گیس کے ذخائر کو چوری کرنے سے گریز کرے ورنہ اسرائیل کو سنگین نتائج کے لئے تیار رہنا چاہئیے۔
یہ بھی پڑھیے
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور مزاحمت فلسطین کا جواب
حالیہ دنوں لبنان اور اسرائیل کے مابین اس سمندری حدود کے معاملہ پر بحث نے ایک نیارخ اس وقت اختیار کر لیا ہے کہ جب دوسری طرف ایران کے ساتھ مغربی ممالک کے مذاکرات کا دور شروع ہوا ہے اور امریکہ کو ایران کی شرائط پر معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کا موقع مل رہاہے۔ کچھ ذرائع ابلاغ پر ماہرین اور خصوصا اسرائیل کے اندر ماہرین سیاسیات نے کہنا شروع کیا ہے کہ اس معاہدے کی کامیابی کے بعد لبنان میں موجود مزاحمتی و سیاسی جماعت حزب اللہ کو لبنان کے سمندری حدود کے معاملہ سے روک لیا جائے گا۔
اس طرح کی من گھڑت خبروں اور افواہوں کے بعد حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے گذشتہ دنوں انتہائی واضح اور دو ٹوک الفاظ میں لبنانی عوام کی امنگوں اور خواہشات کی ترجمانی کرتے ہوئے عالمی برادری اور خود ساختہ تجزیہ کاروں کو کہا ہے کہ ایران کے ساتھ مغربی ممالک کا معاہدہ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اس بات سے لبنان کی سمندری حدود کے معاملہ پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔لبنان اور حزب اللہ کا موقف وہی ہے جو پہلے تھا کہ اسرائیل کا سمندری حدود سے غاصبانہ تسلط ختم کیا جائے اور گیس کے ذخائر پر لبنان اور لبنانی عوام کا حق ہے۔انہوں نے اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہے کچھ بھی معاہدے ہوتے رہیں اسرائیل کو اس کے گناہوں کی سزا ملے گی اور اسرائیل کو کسی صورت امان نہیں ملے گی۔
یہ بھی پڑھیے
اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے؟
حزب اللہ کے قائد نے عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر لبنان اور اسرائیل کے مابین بحری حد بندی کے بارے میں لبنان کے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو معاملات بڑھ جائیں گے قطع نظر اس کے کہ ایران کے جوہری معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں یا نہیں۔ آنے والے دن لبنان میں تیل اور گیس کے ذخائر سے متعلق بہت اہم ہوں گے۔
لبنان کے ایک اخبار روزنامہ الاخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے عہدیداروں نے امریکہ کا سفر کیاہے جہاں وہ امریکہ کی ثالثی میں لبنان کی بحری حد بندی کے معاملہ پربات چیت کریں گے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ جلد ہی کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔
دوسری جانب حزب اللہ کے قائد سید حسن نصر اللہ نے امریکی انتظامیہ کو مخاطب کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بات امریکی ثالث پر منحصر ہے کہ وہ وقت ضائع کئے بغیر فیصلہ لیتا ہے یا نہیں۔اس سے پہلے بھی چند ماہ قبل سید حسن نصر اللہ نے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو متنبہ کیا تھا کہ لبنان کی سمندری حدود سے گیس کی چوری کو فی الفور روک دیا جائے اگر ایسا نہ ہوا تو پورے خطے میں کسی کو گیس اور تیل کے ذخائر دستیاب نہیں ہوں گے اگر لبنان کو اس کا حق نہیں ملے گا تو پھر دشمن کو کسی طور یہ گیس حاصل نہیں کرنے دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے
ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کی بحالی
خلاصہ یہ ہے کہ غاصب صہیوی ریاست اسرائیل نہ صرف فلسطین پر قابض اور وہاں کے قدرتی ذخائر کوہڑپ کر رہی ہے بلکہ شام میں جولان کے علاقہ پر بھی ناجائز تسلط قائم کیا ہوا ہے اور شام سے تیل کی دولت پر نظریں جما رکھی ہیں اسی طرح لبنان کی سمندری حدود میں موجود تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کو چوری کرنا اور اسرائیل کے لئے استعمال کرنا غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے گھناؤنے جرائم کا حصہ ہے۔
البتہ لبنان جسے اسلامی مزاحمت کا قلعہ اور دارلحکومت بھی کہا جاتا ہے غاصب صہیونیوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہے اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو یہ بات بار آور کروا دی ہے کہ اگر لبنان کی حدود میں موجود زخائر سے لبنانی عوام کو مستفید نہیں ہونے دیا جائے گا تو پھر اسرائیل کو بھی امان نہیں ملے گی اور کسی کو بھی ان ذخائر کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان