غزہ ۔ روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے چند منتخب غیر ملکی صحافیوں کو غزہ کا جو محدود دورہ کرایا گیا وہ کسی بھی طرح حقیقت تک رسائی کا موقع نہیں تھا بلکہ ایک منظم اور اسکرپٹ شدہ مہم تھی۔ اس مہم میں صحافیوں کی نقل و حرکت سختی سے محدود رکھی گئی، انہیں پہلے سے تیار شدہ مناظر دکھائے گئے اور ہر مواد کی اشاعت سے قبل قابض فوج کو پیشگی منظوری دینا لازمی قرار دیا گیا۔
قابض اسرائیل نے اکتوبر سنہ 2023ء میں غزہ کے خلاف اپنی نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے ہی عالمی میڈیا پر سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ غیر ملکی صحافیوں کے آزادانہ داخلے پر مکمل قدغن عائد کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں فلسطینی صحافیوں کو ہی نہتی فلسطینی آبادی کے خلاف اس وحشی جنگ کے احوال دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری اٹھانا پڑی۔
غزہ کے حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق قابض اسرائیل نے براہ راست نشانہ بنا کر 257 فلسطینی صحافیوں کو شہید کیا تاکہ فلسطینی بیانیے کو مکمل طور پر خاموش کر دیا جائے۔
کمیٹی کے مطابق تین غیر ملکی صحافیوں نے، جنہیں اس گائیڈڈ ٹور میں شامل کیا گیا تھا، انتقام کے خوف سے اپنا بیان دینے سے انکار کر دیا۔ جبکہ جن غیر ملکی صحافیوں نے اپنی گواہی دی انہوں نے واضح کیا کہ یہ دورے صحافتی سرگرمی سے زیادہ ایک تیار شدہ "اسٹیج ڈرامہ” تھے۔
صحافیوں کی نقل و حرکت مکمل طور پر محدود
فرانس 24 کی نامہ نگار نوغا تارنوبولسکی نے بتایا کہ انہیں قابض فوج کے ترجمان کی طرف سے منتخب کردہ ایک چھوٹے گروپ کے ساتھ غزہ لایا گیا۔ نیر عوز چیک پوسٹ کے قریب انہیں دو نقشے دکھائے گئے جو ان کے مطابق "کسی کام کے نہیں تھے” جبکہ فوج کی جانب سے دکھائی گئی "زرد لکیر” جس کے اندر صحافیوں کو حرکت کی اجازت تھی، حقیقت میں سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔
صحافیوں کو بند ٹرکوں میں غزہ کے اندر ایک فوجی اڈے پر لے جایا گیا جو سیز فائر کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ وہاں سے انہیں صرف دور سے تباہ حال الشجاعیہ دکھایا گیا۔ انہیں نہ شہری علاقوں میں جانے دیا گیا نہ کسی فلسطینی سے بات چیت کی اجازت ملی اور نہ ہی آزادانہ ریکارڈنگ ممکن تھی۔
تارنوبولسکی نے کہا "یہ صحافت نہیں تھی۔ یہ مکمل طور پر ایک تھیٹر تھا۔ ہم نے کسی فلسطینی سے ایک لفظ تک نہیں سنا”۔
آزاد صحافی اینڈریا کروگمان نے کہا کہ قابض فوج کے ساتھ کی جانے والا یہ گشت کسی پیشہ ور رپورٹنگ کا متبادل نہیں تھیں۔ صحافیوں کو صرف فوجی اڈوں تک محدود رکھا گیا اور وہ صرف فوج کے ترجمان اور دو فوجیوں سے ہی بات کرسکے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر تصویر اور ویڈیو کو اشاعت سے پہلے قابض فوج کو دکھانا لازمی تھا۔ "یہ دورہ آزادانہ رپورٹنگ کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا”۔
تقریباً 90 منٹ کی اس "گائیڈڈ ٹور” میں صحافیوں کو صرف مختلف فوجی اڈوں کے درمیان گھمایا گیا اور کسی شہری علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
"جو فوج دکھانا چاہے وہی دیکھتے ہیں”
امریکی ریڈیو نیٹ ورک این پی آر کے نامہ نگار ڈینیئل ایسٹرین نے بھی دونوں صحافیوں کی گواہی کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹور "سخت فوجی نگرانی میں کرائی جانے والی ایک مشروط مہم” تھی۔
انہوں نے صرف اتنا دیکھا جتنا قابض فوج نے دیکھنے کی اجازت دی اور کسی شہری سے رابطہ ممکن نہیں تھا۔
ایسٹرین نے کہا کہ یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ قابض اسرائیل غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگا کر بین الاقوامی تنقید سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح کی محدود اور کنٹرول شدہ گشتیں محض پروپیگنڈا کے اوزار ہیں جو پیشہ ورانہ صحافتی معیارات کے خلاف ہیں۔
گذشتہ دو برسوں سے جاری اس نسل کشی کے دوران کمیٹی برائے تحفظ صحافیان بارہا مطالبہ کر چکی ہے کہ غیر ملکی صحافیوں کو آزادانہ اور بلا شرط غزہ جانے دیا جائے کیونکہ فوج کے ساتھ صحافیوں کا دورہ آزادی اظہار و صحافتی خودمختاری کو ختم کر دیتا ہے اور انہیں قابض اسرائیلی پروپیگنڈے کا حصہ بنا دیتا ہے۔