(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) پاکستان چونکہ سنہ1947ء میں انگریزوں کی غلامی سے نجات پاکر آزاد ہوا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ برطانوی استعمار نے تقریبا دو سو سال تک بر صغیر پر حکومت کی اور اس دوران ہندو اور مسلمانوں پر راج کیا۔ جس وقت پاکستان آزاد ہوا تو پاکستان کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ غلام ذہنیت کا غلبہ تھا۔قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسے عظیم قائدین کی یہ سوچ تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آزاد ملک میں رہتے ہوئے ہماری قومی کی سوچ کا دائرہ کار بھی وسیع اور آزاد ہوتا چلا جائے گا۔لیکن چونکہ تعلیمی نظام بھی انگریز حکمرانوں کا رائج کیا ہوا تھا اور اس نظام سے نکلنے والی اکثریت چاہتے نہ چاہتے انگریز غلامی کا طوق اپنے اذہان پر طاری کر لیتی تھی اور یہ طوق آج تک ہماری قوم کی گردنوں میں تو ظاہری طور پر موجود نہیں ہے لیکن ہمارے اذہان پر اس طوق غلامی کا غلبہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اسی غلامانہ سوچ کے پیروکاروں نے انگریز سامراج کی خدمت گذاری کی بعد ازاں انہی کی نسلوں نے آگے چل کر اس وفاداری کو جاری رکھا اور آج تک ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام اور اداروں پر ایسے ہی لوگوں کو مسلط کیا گیا ہے کہ جن کے آباؤ اجداد ماضی میں انگریز سرکار کے وفادارتھے اور آج ان کی نئی نسل ذہنی طور پر انگریز سامراج کی غلامی کا طوق پہن کر پاکستان کو کھوکھلا کر رہی ہے جبکہ اپنی تجوریوں کو لبا لب بھرنے میں مصروف عمل ہے۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تویہاں صرف اور صرف خود غرضی سکھائی جا رہی ہے نوجوانوں کی ذہنی نشو نمانہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ تعلیمی اداروں کے مالکان اور ان اداروں میں پرنسپل اور وائس چانسلر جیسے عہدوں پر موجود اکثر و بیشتر افراد وہ موجود ہیں کہ جن کے آباؤ اجداد ماضی میں استعماری قوتوں کی غلامی کرتے چلے آئے ہیں اور آج ان کی اولادیں وہی خدمات اپنے استعماری آقاؤں امریکہ اور برطانیہ کے لئے انجام دے رہی ہیں۔
حال ہی میں کراچی کے ایک نجی اسکول جس کانام ناصر ٹرسٹ اسکول ہے،کورنگی میں واقع ان کی ایک برانچ میں بچوں کے ہاتھ میں مختلف جھنڈے تھمائے گئے جن میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا جھنڈا بھی تھمایا گیا تھا اور نمایاں دیکھا جاسکتا تھا۔یہ جھنڈا خود اس بات کی عکاسی تھا کہ اسکول مالکان اور ذمہ داران اسی ذہنی غلامی کے طوق میں جکڑے ہوئے ہیں جس کا درج بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے اس معاملہ پر اعتراض کیا گیا جس کے بعد اسکول انتظامیہ نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ ان کے اسکول پروگرام میں اسرائیل کا جھنڈا موجود تھا اور ان تمام تصاویر کو فیس بک سے ہٹا دیا گیا لیکن خبر سوش میڈیا پر پھیل چکی تھی اور پاکستان کے عوام نے اس حرکت پر شدید غم و غصہ کا رد عمل بھی پیش کیا۔
تعلیمی اداروں پر مسلط استعماری ذہنیت کے غلام افراد سے اور کس بات کی امید کی جا سکتی ہے؟ ان عناصر کو یہ تک نہیں معلوم کہ پاکستان غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں۔ناصر اسکول کی انتظامیہ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے ہی اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔
سوشل میڈیا پر خبر پھیلنے کے بعد ناصر اسکول کی انتظامیہ نے ایک وضاحت نامہ پیش کرتے ہوئے اپنی مزید ذہنی غلامی کا ثبوت پیش کیا اور کہا کہ ماڈل یواین کاپروگرام تھا جس میں اسرائیل سمیت 32ممالک کی نمائندگی ظاہر کی گئی تھی۔افسوس در افسوس کہ اسکول انتظامیہ اپن غلطی کا اقرار کرنے کی بجائے وضاحت نامہ میں بھی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو ایک ملک کا درجہ دے رہی ہے حالانکہ پاکستان کے آئین اور خارجہ پالیسی اصولوں کے تحت پاکستان کبھی اسرائیل کو ایک ریاست یا ملک تصور ہی نہیں کرتا ہے۔یہ وہ نتائج ہیں جو ان عناصر کے آباؤ اجداد کی انگریزوں کی غلامی کے بعد ان کی موجودہ نسلوں میں سرائیت کر چکے ہیں۔
ماڈل یو این کی آڑ میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کا پرچم لہرانا کسی طور پر قابل وقبول نہیں ہے کیونکہ اسکول انتظامیہ کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ خود اقوام متحدہ کا کوئی قانون نہیں ہے بلکہ ہر ریاست میں ریاست کا قانون ہی بالاتر ہوتا ہے اور پاکستان کا قانون یہ کہتا ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔لہذا ناصر اسکول کی ذہنی غلام انتظامیہ کی وضاحت نامہ میں واضح طور پر اسکول انتظامیہ کی بد نیتی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں پے در پے اسرائیل کے متعلق واقعات رونما ہو رہے ہیں لیکن حکومت خاموش ہے۔حکومت کی اس خوفناک خاموشی میں شاید کوئی بڑا طوفان آنے کا اندیشہ محسوس ہو رہا ہے۔شاید ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور سیاستدانوں سمیت مقتدر حلقوں تک امریکی ڈالروں کی جھنکار پہنچ چکی ہے اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔گذشتہ چند برس سے امریکہ کی سرپرستی میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے لئے دنیا بھر میں نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ان ممالک میں عرب دنیا سرفہرست ہے کہ جہاں باقاعدہ صدی کی ڈیل اور ابراہیمی معاہدے کے نام پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور عرب دنیا کے ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے عوام کی سرپرستی امریکی حکومت انجام دیتی آئی ہے۔ اسی طرح افریقی ممالک میں بھی امریکہ نے بڑے پیمانہ پر سرمایہ گذاری کی ہے تا کہ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ افریقی ممالک میں بھی غاصب صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے لئے نرم گوشہ قائم کیا جائے۔ امریکی حکومت نے ا س منصوبہ کے تحت جہاں عرب اور افریقی ممالک پہلے اور دوسرے مرحلہ میں ٹارگٹ کیا وہاں ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء میں پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کو بھی اپنے منصوبہ میں شامل کیا گیا ہے۔
عرب دنیا کے حکمرانوں نے ماضی کی امریکی حکومتوں نے اقتدار کا لالچ دے کر غاصب اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے پر اکسایا اور اسی طرح یہی فارمولہ افریقی ممالک میں بھی استعمال کیا گیا۔ پاکستان کو نشانہ بنانے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے البتہ یہاں بھی حکمران ٹولہ امریکی مفادات کے لئے موزوں ترین رہا ہے۔ گذشتہ چند برس میں پاکستان میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل سے متعلق اتنے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ جو شاید مسئلہ فلسطین کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی رونما نہیں ہوئے اور حد تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی تک پہنچنے والے اراکین، سابق فوجی افسران، یونیورسٹیز میں نوازے جانے والے پروفیسرز اور اسی طرح نام نہاد صحافیوں پر بھی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے لئے زمینہ سازی کرنے کے لئے پاکستان کے تعلیمی اداروں اور ان اداروں میں موجود عہدیداروں پر بھی سرمایہ کاری کی ہے اور اگر یہ حقیقت ہے تو ا سکا مطلب یہ ہو گا کہ آئین پاکستان کے ساتھ غداری اور وطن سے خیانت۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو ان سازشوں کے خلاف متحد ہونا ہو گا اور ایسی تمام غلامی کی سوچ کو دفن کرنا ہو گا جو ہمارے وطن عزیز اور ہماری نسل نو کو تباہی اور بربادی کے دہانے تک لے جاتی ہو۔ہم سب کا فرض ہے کہ اپنے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور بانیان پاکستان کی سوچ و فکر اور نظریات کہ جن میں سب سے اہم نظریہ پاکستان ہے کی حفاظت اور دفاع کریں اور پاکستان میں موجود اسرائیلی ایجنٹوں کو نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ ان کے خلاف قانوی چارہ جوئی کے اقدامات عمل میں لا کر روک تھام کے لئے عملی کوشش کریں۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان