(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) قابض اسرائیل واحد ملک ہے جو ناجائز وجود کے ساتھ پھیلتارہا اور اقوام متحدہ میں ان کے خلاف تمام قرارداد امریکہ شیطان بزرگ کے زریعے ویٹو ہوتی رہی اقوام متحدہ نے کبھی اسرائیلی مظالم کو روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
اردو زبان میں ”ڈھیل“ کا لغوی معنی لچک ، مہلت یا نرمی ہے۔ ان معنی کو ملحوظ نظر رکھتے ہوے دیکھا جائے تو اس صدی میں دنیا میں کسی ملک کو اقوام متحدہ کے ذریعے اگر ڈھیل ملی ہے تو وہ ملک قابض اسراٸیل ہے۔ اور ڈیل اردو میں حبثہ، حجم ، شکل ، گٹا ، ڈول ، وضع یا شباہت کے معنی میں ہے۔ مگر اصطلاح میں ہمارے ہاں کسی بھی غیر اخلاقی و غیر قانونی عمل کو قابل قبول بنانے کے عمل کو ”ڈیل“کہا جاتا ہے۔
ڈیل انصاف یا عدالت نہی ہوتی البتہ طاقتور کی طرف سے کمزور پہ فیصلہ تھوپنے کی روش یا کسی مجرم کو غیر عادلانہ انداز میں سہولت اور رعایت دینے کے عمل کو ڈیل کہا جاتا ہے۔ لہذا صدی کی ڈیل نامی اس عالمی گیم کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اسرائیل کیسے وجود میں آیا؟
19ویں صدی میں برطانیہ عالمی طاقت تھا مگر جرمنی بھی ایک بڑی طاقت کے طور پہ نمودار ہو رہا تھا {اس دوران یہودی یورپ میں اقلیت کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔
ایک طرف برطانیہ۔ فرانس اور روس کا اتحاد تھا, دوسری طرف جرمنی، اٹلی ، آسٹریا اور ہنگری وغیرہ اس وقت مسلمانوں میں قابل ذکر ترکی تھا جو سلطنت عثمانیہ کے نام سے وسیع اسلامی علاقوں پہ حاکم تھااگرچہ حضرت عثمان یا خلافت سے کوئی نسبی تعلق نہیں تھا مگر مسلمان اور اسلام سے تعلق کی بنا پر خلافت عثمانیہ کےنام سے ایک ظاہری اسلامی حکومت تھی۔ 1517 میں ترک عثمانی حکومت نے مملوک خاندان سے اقتدار چھینا اور فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ اس دور میں مصر سے مکہ و مدینہ تک ترکوں کی حکومت تھی البتہ بعض عرب قبائل خلافت عثمانیہ کے خلاف بار بار بغاوت کرتے رہے۔
جب دوسری جنگ عظیم چھڑگئی تو ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور روسی بندرگاہوں پر حملہ کر کے عالمی جنگ کا باقاعدہ حصہ بن گیا وہ بھی برطانیہ جیسی طاقت کے خلاف, چنانچہ برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک نے سلطنت عثمانیہ اور اس کے زیر اثر علاقوں جن میں فلسطین بھی شامل تھا کو اپنا خاص ٹارگٹ بنایا۔
جس زمانے میں مصر سمیت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی ترکوں کے قبضے میں آگئے تھے برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کیلیے ایسا پلان بنایا جس کے تحت مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا اور دنیا بھر کے یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کا آغاز کرنا تھا, برطانیہ نے اپنی کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان عرب قباٸل کی سرپرستی شروع کی جو خلافت عثمانیہ کے خلاف تھے یوں ایک قبیلہ کے سربراہ سعود کے سرپر دست شفقت رکھا پھر اسے حجاز کا حکمران بنا دیا, بدلتے ہوئے سیاسی حالات و مناظر کو دیکھتے ہوئے یہودیوں نے اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا ان میں ان کی تنظیم صیہون 8 نے خفیہ کوششیں تیز کردیں۔
اس دور میں صیہونی تحریک کا سربراہ کیمسٹری کا ایک یہودی پروفیسر ڈاکٹر واٸنرمین تھاجس نے مہلک ہتھیاروں کی شکل میں اپنی خدمات کے عوض میں برطانوی حکومت سے یہ انعام مانگا کہ وہ وعدہ کرے کہ جنگ میں کامیابی کی صورت میں فلسطین میں یہودیوں کا ایک قومی وطن قاٸم کیا جاۓ چنانچہ نومبر 1917 میں وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے ایک خفیہ خط کے زریعے یہ وعدہ کرلیا اسی خط کو عرف عام میں "اعلان بالفور” کہا جاتا ہے،
اس خفیہ معاہدے کی وجہ سے یہودیوں کی تمام ہمدردیاں برطانیہ امریکہ فرانس اور آل سعود کے ساتھ ہوچکی تھیں، اسی دوران 3 جون 1933 کو 26 جرمن نیوکلیٸر سائنسدان میں سے 14 ملک چھوڑ کر چلےگٸے، ان میں مشہور ساٸنسدان آئن اسٹائن سمیت چند دیگر ایسے جرمن سائنسدان تھے جنہوں نے امریکہ میں ایٹمی ٹکنالوجی کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ جرمنی اور جاپان سے پہلے ایٹم بم بناکر جاپان کے ناگاساکی اور ہیروشیما کو پلک جھپکنے میں راکھ کا ڈیر بھی بنادیا یوں امریکہ کو عالمی طاقت بنانے میں یہودیوں کا بنیادی کردار شامل ہے۔ کچھ سائنسدان برطانیہ و فرانس چلے گٸے یوں اس اتحاد کی بنیاد پڑی جسے آج ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک دیکھتے رہینگے۔
فلسطینیوں نے اپنی زمینیں مہنگے داموں یہودیوں کو بیچ دیں، یہودی این جی اوز زمینیں خرید کر گھر بناتے رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرنا شروع کردیا، فلسطینیوں کو ہوش آنے تک یہودی اپنا کام کر چکے تھے۔
1936 سے 1939 تک فلسطینیوں نے برطانیہ سے بغاوت بھی کی مگر اب پانی سر سے گزر گیا تھا، چڑیاں کھیت چگ گٸی تھیں، اس دوران ہی یہودیوں نے فلسطین میں اپنالشکر بنالیا۔
سلطنت عثمانیہ کا چاند برطانیہ، سعود خاندان اور چند عرب قباٸل کی گٹھ جوڑ سے غروب ہوچکا تھا، فلسطینی بے سرو سامان و بے یار و مددگار ہوگٸے تھےجبکہ امریکہ و برطانیہ نے یہودیوں کو منظم و مضبوط کر دیا تھا۔
اب یہودیوں نے اپنی فوج بھی بنالی، فلسطین میں یہودیوں کی تعداد سات لاکھ اٹھاون ہزار تک پہنچ گئی اور وہ بہت منظم ہوگٸے تو برطانیہ نے علاقے کو جو عثمانی سلطنت کے بعد اپنے چنگل میں لے رکھا تھا اب اسے اقوام متحدہ کے حوالے کردیا۔
16مٸی 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے زریعے ارض فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا اور اسراٸیل کو کل رقبے کا %56 فیصد حصہ بخش دیا گیا، جس کے 3 منٹ کے بعد امریکہ نے اور 8 منٹ بعد سویت یونین نے اس ریاست کو قبول کر لیا جو کہ اس وقت کے دو سپر پاور تھے۔
اس وقت عرب ممالک سمیت پورے عالم اسلام نے اس قابض سلطنت کو قبول نہیں کیا جن میں شام اور مصر پیش پیش تھے۔
عرب ممالک نے اعلان جنگ کیا گھمسان کی جنگ ہوئی تو عالمی طاقتوں سمیت اقوام متحدہ نے مداخلت کی، عرب اسرائیل کئی جنگیں ہوئیں پھر چھ روزہ 5 تا 10 جون 1967 تیسری عرب اسرائیل جنگ ہوئی اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل پہلے سے زیادہ وسیع تر ہوگیا۔
ان مختلف جنگوں اور ان میں عالمی استعمار کی پشت پناہی کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطین کے مغربی کنارے مشرقی یروشلم پٹی صحرائے سینا غرب اردن اور گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل گولان کی پہاڑیوں اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی دعوئے کو مسترد کرتی رہی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 242 کی بنیاد پرجنگ کے دوران میں جیتی گئی سرزمین کو فاتح کا حصہ شمار نہیں کیا جاتا اس اصول کو زمین برائے امن کہا جاتا ہے لیکن اسرائیل کے لیے کوئی اصول ہی نہیں ہے۔
قابض اسرائیل واحد ملک ہے جو ناجائز وجود کے ساتھ پھیلتارہا اور اقوام متحدہ میں ان کے خلاف تمام قرارداد امریکہ شیطان بزرگ کے زریعے ویٹو ہوتی رہی اقوام متحدہ نے کبھی اسرائیلی مظالم کو روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، نہ کبھی فلسطین اور کشمیر کے عوام کی فریاد پہ کان دھرا بلکہ مسلمانوں کی فریاد ہمیشہ ان سنی کرتارہا۔ مشرقی تیمور کے عیسائیوں نے انڈونیشیا سے آزادی کا مطالبہ کیا تو فوری ریفرنڈم کرا کے 1999 میں آزاد کیا، دارفر کے عیسائیوں کو ریفرنڈم کے زریعے سوڈان سے الگ کیا مگر کبھی فلسطینیوں اور کشمیری مسلمانوں کی فریاد پر کوئی توجہ نہیں دی لہذا اس صدی میں سب سے زیادہ ڈھیل اگر کسی کو ملی ہے تو وہ غاصب اسرائیل ہے۔
تحریر : محمد بشیر دولتی