روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ
غزہ کے ایک انسانی حقوق مرکز نے قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جاری فوجی جارحیت کے دوران آنکھوں کی چوٹوں میں تشویشناک اور غیر معمولی اضافے پر گہرے خدشات کا اظہار کیا ہے، جبکہ قابض حکام کی طرف سے بینائی بچانے اور جنگی زخموں کی تشخیص کے لیے ناگزیر طبی آلات کی غزہ میں رسائی مسلسل روکی جا رہی ہے۔
اپنے بیان میں مرکز نے کہا کہ جمع کی گئی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج دانستہ طور پر فلسطینی شہریوں کو مستقل معذوری کا شکار بنا رہی ہے، جن میں آنکھوں کو نشانہ بنا کر براہ راست سنائپنگ شامل ہے، اس کے علاوہ شدید بمباری اور ایسے گولوں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے جو بڑی مقدار میں چھروں کو پھیلاتے ہیں۔
مرکز نے تصدیق کی کہ دستیاب معلومات کے مطابق کم از کم 1700 فلسطینی سنہ 25 ماہ پر محیط نسل کشی کے دوران غزہ میں اپنی آنکھوں سے محروم ہو چکے ہیں، جبکہ تقریباً 5 ہزار دیگر افراد علاج سے محرومی کے باعث مکمل یا جزوی طور پر بینائی کھونے کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔
بیان میں بتایا گیا کہ قابض اسرائیل نے ہسپتالوں کے بنیادی ڈھانچے، بجلی کے جنریٹرز اور جراحی آلات کو تباہ کیا اور ادویات، طبی سازوسامان اور ضروری طبی سامان کی ترسیل پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
مرکز کے مطابق علاج کی شدید قلت کے باعث آنکھوں کی سنگین بیماریاں بگڑ چکی ہیں، جن میں آنکھوں کا بڑھتا ہوا دباؤ، قرنیہ، شبکیہ اور موتیا شامل ہیں، جو مریضوں کو مستقل نابینائی کے دہانے پر پہنچا رہی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ تقریباً 2400 مریض انتظار کی فہرستوں میں شامل ہیں جنہیں فوری جراحی آپریشن درکار ہیں، مگر غزہ کے اندر اس کی سہولتیں میسر نہیں۔
مرکز کی ٹیم کو دی گئی اپنی شہادت میں غزہ آئی ہسپتال کے شعبہ آپریشن اور بے ہوشی کے سربراہ ڈاکٹر ایاد ابو کرش نے بتایا کہ جنوری سنہ 2024ء سے ستمبر سنہ 2025ء تک ہسپتال میں آنکھوں کی 2077 چوٹوں کے کیسز سامنے آئے، اور اس عرصے میں آنکھوں کی چوٹیں مجموعی جنگی زخمیوں کا 5 فیصد بنتی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ اعداد و شمار صرف وادی غزہ کے شمالی حصے تک محدود ہیں، جس کا مطلب ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈاکٹر ابو کرش نے وضاحت کی کہ 18 فیصد کیسز میں آنکھ کو مکمل طور پر خالی کرنا پڑا، 34 فیصد میں آنکھ کے اندر غیر ملکی اجسام موجود تھے، جبکہ 9 فیصد متاثرین دونوں آنکھوں سے زخمی ہوئے، جس سے مکمل اور مستقل نابینائی کا خدشہ کئی گنا بڑھ گیا۔
انہوں نے صنفی تقسیم بیان کرتے ہوئے بتایا کہ متاثرین میں مردوں کا تناسب 42 فیصد، خواتین، فی صد 28 فیصد اور بچے 30 فیصد ہیں۔
انسانی حقوق مرکز نے کہا کہ متاثرین میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس جارحیت میں سب سے زیادہ نشانہ عام شہری بن رہے ہیں، اور وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کے دوران حملوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
مرکز کی ٹیم کے مطابق قحط کے عروج کے دوران آنکھوں کی چوٹوں کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا، کیونکہ شہری خوراک اور بنیادی اشیاء کے حصول کے لیے ان امدادی مراکز کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے جو قابض فوج کی تعیناتی کے قریب تھے، جہاں انہیں براہ راست نشانہ بنایا گیا۔
چودہ سالہ بچہ محمد ا نے بتایا میری فیملی کے پاس کھانا نہ ہونے کی وجہ سے میں رفح میں امریکی امدادی تقسیم مرکز جاتا تھا۔ تیسری بار وہاں شدید فائرنگ شروع ہو گئی جو ریت کے ٹیلوں کے پیچھے موجود سنائپرز کی جانب سے تھی۔ مجھے دائیں آنکھ میں گولی لگی، دو گھنٹے بعد مجھے ہسپتال منتقل کیا گیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ میں اپنی آنکھ کھو چکا ہوں۔
حقوقی مرکز نے نشاندہی کی کہ قابض اسرائیلی فوج صرف زخمی کرنے پر اکتفا نہیں کر رہی بلکہ دانستہ طور پر متاثرین کو علاج سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے، چاہے وہ سفر پر پابندی ہو یا طبی آلات اور ضروری مشینری کی ترسیل میں رکاوٹیں۔
مرکز نے خبردار کیا کہ غزہ آئی ہسپتال کو جنگی چوٹوں سے نمٹنے کے لیے بنیادی تشخیصی آلات کی شدید کمی کا سامنا ہے، کیونکہ قابض حکام ان آلات کے داخلے سے انکار کر رہے ہیں، حالانکہ بین الاقوامی ادارے ان کی مکمل لاگت اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ اس صورتحال میں طبی عملہ نہایت سادہ اور ابتدائی آلات سے علاج پر مجبور ہے جو چوٹوں کی سنگینی کے مطابق ہرگز کافی نہیں۔
طبی عملے کے مطابق 50 فیصد سے زائد زخمیوں کو مسلسل علاج کی ضرورت ہے جو غزہ کے اندر دستیاب نہیں، یا ان کے کیسز ایسے خصوصی علاج کے متقاضی ہیں جو صرف غزہ سے باہر ممکن ہیں، مگر سرحدی راستوں کی بندش اور مریضوں کے سفر پر پابندی کے باعث یہ علاج اکثر ناممکن ہو جاتا ہے۔
مرکز غزہ برائے حقوق انسان نے زور دیا کہ طبی آلات اور سامان کی ترسیل پر مسلسل پابندی اجتماعی سزا کے زمرے میں آتی ہے اور بین الاقوامی انسانی قانون، بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت قابض قوت کی ذمہ داریوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
مرکز نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے فوری اپیل کی کہ وہ قابض حکام پر دباؤ ڈالیں تاکہ آنکھوں کی چوٹوں کے علاج سے متعلق طبی آلات کی بلا مشروط اور فوری رسائی یقینی بنائی جائے، اور مریضوں کو غزہ کے اندر اور باہر خصوصی علاج تک پہنچانے کے لیے محفوظ راستے کھولے جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مرکز نے غزہ آئی ہسپتال اور دیگر طبی مراکز کے لیے فوری طبی معاونت، ضروری آلات کی فراہمی اور ماہر طبی ٹیموں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا تاکہ نابینائی کے بڑھتے ہوئے خطرات کو روکا جا سکے۔
مرکز نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری کی جانب سے اس انسانی المیے کو نظر انداز کرنا زخمیوں کی تکالیف میں اضافہ کر رہا ہے اور قابض اسرائیل کو اپنی وہ پالیسیاں جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جو مریضوں کو علاج اور باعزت زندگی کے حق سے محروم کرتی ہیں۔