(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) اسرائیل کو اس وقت نہ صرف بیرونی محاذ پر شدید دباؤ کا سامنا ہے بلکہ اس کی اندرونی صفوں میں بھی گہری دراڑیں سامنے آ رہی ہیں۔ غزہ کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں، جب کہ سابق فوجی و انٹیلی جنس اہلکاروں کی جانب سے جنگ بند کرنے اور قیدیوں کی واپسی کے لیے کھلے عام مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔
اسرائیل کے معروف اخبار یدیعوت احرونوت کے مطابق موساد کے 250 سے زائد سابق ارکان نے ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے ہیں جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر جنگ ختم کرے اور تمام مغویوں کی واپسی کو یقینی بنائے۔ اس خط پر موساد کے تین سابق سربراہان – ڈینی یاٹوم، ایفرائیم ہیلیوی اور تامیر پارڈو – سمیت درجنوں اعلیٰ افسران کے دستخط شامل ہیں، جو ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ اسرائیلی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
یہ تنہا آواز نہیں۔ یونٹ 8200، ڈاکٹروں، پائلٹس، نیوی، آرٹلری، اور گیواتی بریگیڈ یونٹوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سابق اور موجودہ ریزرو فوجیوں نے بھی اسی نوعیت کی اپیلیں جاری کی ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، 1,600 سے زائد پیرا ٹروپرز اور انفنٹری کے سابق اہلکاروں نے بھی ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں جنگ کے فوری خاتمے اور یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اسرائیل ہیوم کے مطابق فوج کی اعلیٰ قیادت شدید تحفظات کا شکار ہے اور غزہ میں مزید زمینی کارروائی یا ریزرو فورسز کی بڑی سطح پر تعیناتی کے حق میں نہیں۔ جنرل کمانڈ اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ فوج کو مزید دباؤ میں ڈالنے سے حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے حالیہ سیکیورٹی کابینہ اجلاس میں جنگجوؤں کی شدید کمی پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ ان کے مطابق، صرف فوجی ذرائع سے حماس کو شکست دینا ممکن نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ متوازی سیاسی کوششیں نہ کی جائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ موجودہ عسکری وسائل سے تمام اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں، جس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی قیادت کو اپنی حکمت عملی پر ازسرِ نو غور کرنا پڑے گا۔
مزید برآں، سیکیورٹی فورسز کے بھرتی پروگرام "تالپیوٹ” کے 170 سے زائد فارغ التحصیل افراد نے بھی قیدیوں کی بازیابی کو ایک "بنیادی اخلاقی فریضہ” قرار دیتے ہوئے جنگ کے خاتمے کی حمایت کی ہے۔
ان تمام احتجاجی آوازوں کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جنگ کا جاری رہنا اسرائیلی معاشرے کو اندر سے توڑ رہا ہے، اور اب وہ وقت آ چکا ہے کہ انسانی جانوں کو ترجیح دی جائے، نہ کہ سیاسی مفادات کو۔